پڑھایا۔ ۱۹۳۱ء کے سفر میں مولانا شیخ کے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے درس میں شریک ہوئے اور خوب استفادہ کیا، اس دوران مولانا کے دل میں شیخ لاہوری سے اصلاح وتربیت کے مستقل تعلق کا جذبہ پیدا ہوا، درخواست پیش کی تو فرمایا کہ میرے شیخ ومرشد حضرت خلیفہ غلام محمد صاحب حیات ہیں ، میں ان کو خط لکھتا ہوں ، آپ دین پور جائیں اور ان سے بیعت ہوجائیں ۔ (پرانے چراغ ۱؍۱۴۶)
مولانا تشریف لے گئے، بیعت ہوئے اور بہت گہرا اثر لے کر واپس ہوئے، ۱۹۳۲ء میں مولانا نے شیخ لاہوریؒ کے مدرسہ قاسم العلوم میں باقاعدہ داخل ہوکر تفسیر قرآنِ کریم کا پورا کورس مکمل کیا، رات دن محنت کی اور امتحان میں سب سے فائق رہے۔ شیخ لاہوریؒ کے درس میں عقیدۂ توحید کی وضاحت، اہل اللہ کے مؤثر ودلآویز واقعات اور جذبہ جہاد مرکزی مضامین ہوتے تھے، مولانا ان سے بے حد مستفید ومتأثر ہوئے؛ البتہ جو طرز شیخ لاہوری کا تھا مولانا کو اس سے زیادہ مناسبت نہ تھی، اس لئے مولانا نے بعد میں اپنے دروس قرآن کے سلسلہ میں اس طرز کی پیروی تو نہیں کی؛ لیکن اس کے بہت سے فوائد مولانا کو تاآخر محسوس ہوتے رہے، شیخ لاہوریؒ سے مولانا کا تعلق بڑھتا گیا، مولانا باربار لاہور جاکر ان سے ملاقات واستفادہ کرتے رہے، خود مولانا لاہوریؒ کی شفقت ومحبت میں اضافہ ہوتا گیا، خلافت بھی عطا فرمائی، اپنے ایک مکتوب میں ۱۹۴۸ء میں تحریر فرمایا:
’’چوں کہ آپ میرے ہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ کا جو فضل بھی آپ پر ہو، وہ میرے لئے باعث صد فخر ہے، مجھے جس طرح مولوی حبیب اللہ سلمہ (فرزند اکبر شیخ لاہوریؒ) کی ترقی سے فرحت ہوسکتی ہے، اسی طرح بلکہ واقعہ یہ ہے کہ بعض وجوہ کی بنا پر اس سے زیادہ خوشی اور سرور آپ کے درجات کی ترقی سے ہوتا ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۱۶۱)
۱۹۵۶ء کے ایک دوسرے مکتوب میں تحریر فرمایا کہ:
’’ آپ کی ہر کامیابی سے جتنا دل میں سرور اور فرحت حاصل ہوتی ہے، غالباً دنیا میں کوئی اور نہیں ، جسے اس درجہ کی راحت حاصل ہو، میرا دل آپ کی ترقی دارین کے لئے بارگاہِ الٰہی میں ملتجی ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۱۶۲)