میاں ؒ نے افراط وتفریط کے دونوں پہلوؤں پر شدید تنقید کی ہے اور اعتدال کے اس پہلو کو اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔
مولانا نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں جگہ جگہ مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا جائزہ لیا ہے اور مغربی کلچر کے مفاسد ومنافع دونوں کا تجزیہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو معتدل راہ اختیار کرنے کی طرف آمادہ کیا ہے۔
مولانا کے بقول تہذیب مغرب کے سلسلہ میں منفی اور سلبی رویہ کا نتیجہ عالم اسلام کی پسماندگی اور زندگی کے رواں دواں قافلہ سے بچھڑنے کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا، اس سے عالم اسلام کا رشتہ باقی دنیا سے منقطع ہوجائے گا، یہ رویہ کوتاہ نظری پر مبنی ہے، اس سے فطری قوتوں اور وسائل میں تعطل پیدا ہوتا ہے، اور یہ اس دین فطرت کی صحیح ترجمانی اور تعبیر نہیں ہے جس نے کائنات میں عقل وتدبر کے استعمال پر بڑا زور دیا ہے اور مفید علوم میں استفادہ کی ترغیب دی ہے، اور جس نے یہ حکم دیا ہے:
واعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ من رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللّٰہ وعدوکم۔
ترجمہ: اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لئے مہیا رکھو؛ تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کردو۔
اور جس نے یہ فرمایا ہے:
الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدہا فہو احق بہا۔
ترجمہ: حکمت کی بات مؤمن کی متاع گم شدہ ہے، جہاں بھی وہ اس کو ملے وہ اس کا حق ہے۔
یہ سلبی موقف قانونِ تکوینی اور اس کائنات کے مزاج کے بھی سراسر خلاف ہے، یہ