ہرچہ دانا کند کند ناداں
لیک بعد از خرابیٔ بسیار
کاش! صدام نے پہلے ہی ان سب کا مشورہ مان لیا ہوتا؛ لیکن بقول فارسی شاعر کے:
خلقے بمنّت یک طرف
آں شوخ تنہا یک طرف
افسوس ہے کہ دین اور امت کی ایسی بدنامی اور بدنمائی ہوئی جس کی نظیر دور دور تک نہیں ملتی‘‘۔ (ماہنامہ ’’افکارِ ملی‘‘ دہلی مارچ ۲۰۰۰ء)
عالم عربی کے مسائل ومشاکل اور وہاں کی فکری، سیاسی اور دعوتی صورتِ حال کے تجزیہ واصلاح اور رہنمائی کی ذمہ داری مولانا نے مختلف ذریعوں اور طریقوں سے انجام دی ہے، عربوں میں خود شناسی کا شعور پیدا کرنے، اپنا منصب پہچاننے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے مولانا نے بڑی قابل قدر کوششیں فرمائی ہیں ، ان کی بے راہ رویوں پر مولانا تڑپے اور روئے ہیں ، انہیں منزل کا راستہ بتایا ہے، مغربی تہذیب کی لعنتوں (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے) سے بچانے کے لئے ہر طرح سے جدوجہد کی ہے اور ہر موقع پر کتاب وسنت اور تاریخ اسلام سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے، اپنی مشغول ترین زندگی میں مولانا نے عربوں کی اصلاح کا جو بیڑہ اٹھایا اس سے ان کی حمیتِ اسلامی اور جذبۂ غلبۂ دین کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: اس مضمون میں مولانا کی کتاب ’’کیف دخل العرب التاریخ، ’’الاسلام والحضارۃ الانسانیۃ، العرب یکتشفون انفسہم‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ زیادہ تر پرانے چراغ کے تینوں حصوں سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
(عربی حوالوں میں ترجمہ مضمون نگار کے قلم سے)
rvr