حضرت مولانا علی میاں ؒ کے دل ودماغ پر شعوری زندگی میں کسی حادثہ کا ایسا اثر نہیں پڑا جتنا اس حادثہ کا اثر پڑا؛ اس لئے کہ مولانا نے بدوِ شعور کے بعد ہی سے اپنی صلاحیتوں کا اصل میدان عالم عربی ہی کو بنایا اور اپنی اکثر اہم تالیفات وخطبات میں مخاطب عرب اقوام وممالک کو بنایا، اس حادثۂ فاجعہ سے بلادِ عربیہ خصوصاً حجاز مقدس اور حرمین شریفین کے لئے جو خطرات پیدا ہوگئے تھے، ان سے مولانا کے دل ودماغ کو بڑا گہرا صدمہ پہنچا کہ:
ع: اسی گھر میں جلایا ہے چراغِ آرزو برسوں
اس کے ساتھ ہی مولانا کو جزیرۃ العرب کی منجانب اللہ حفاظت پر پورا یقین تھا؛ لیکن اس طرح کی تکلیف دہ صورتِ حال کاازالہ مولانا کے نزدیک طرزِ زندگی کی اسلامیت اورایمانی قوت وطاقت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
مولانا نے اس موقع پر صرف ای کرخی دعوت سے کام نہیں لیا؛ بلکہ جہاں عراق اور صدام حسین کے طرزِ عمل کی سختی سے مذمت کی وہیں عالم عرب کے متعدد امراء وحکام کو ان خطرات کی طرف توجہ دلائی اور اخلاص کے ساتھ ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی دعوت دی جو اللہ کی تائید وحمایت سے محرومی کا سبب بنتی ہیں ، مولانا نے اپنا دعوتی فرض اور دینی احتساب غیر جانب داری اور فرض شناسی کے ساتھ انجام دیا، اس موقع پر مولانا نے سعودی عرب کے سربراہ شاہ فہد بن عبد العزیز کو ایک طویل مکتوب لکھا، جس میں اُن کو اِن حقائق کی طرف متوجہ کیا اور اس سلسلہ میں خلیفۂ راشد سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ اور مجاہد اعظم صلاح الدین ایوبیؒ کے نمونوں کو پیش نظر رکھنے کی دعوت بھی دی، شاہ فہد نے اس مکتوب کا جواب دیا اور مولانا کی ہدایات پر عمل کا جذبہ ظاہر کیا اور مولانا کا شکریہ بھی ادا کیا۔
کویت پر عراق کی فوج کشی کا خاتمہ ہوا تو مولانا نے عبدالکریم پاریکھ صاحب کو اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
’’آج صبح یہ خبر ملی کہ عراق نے اپنی فوج کو کویت سے واپس آنے کا حکم دے دیا ہے: