کے خلاف محاذ آرا ہوکر فلسطین کی بازیابی کی خدمت انجام دے سکیں ؛ لیکن یہ موقع نہیں آیا تھا کہ اس نے بجائے اسرائیل کے بلادِ عربیہ اسلامیہ کے اندر ایک نیا محاذ کھول دیا اور ساری توقعات خاک ہوکر رہ گئیں ۔
۵ :- کویت پر یہ حملہ خطرہ کی گھنٹی ہے اور جزیرۃ العرب وحجاز مقدس پر صدام کی نگاہِ طمع اٹھنے کا اندیشہ بھی سر اٹھارہا ہے، کیوں کہ:
تاریخِ اُمم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک
اس اندیشہ کے نتیجہ میں حکومت سعودیہ کو امریکہ وبرطانیہ سے فوجی امداد طلب کرنی پڑی اور دنیا کے عام مسلمانوں کو یہ تمنا ہوئی کہ کاش خود مسلم ممالک جزیرۃ العرب کی حفاظت کے لئے پورے شوق ونشاط کے ساتھ کمربستہ ہوجاتے اور میدانِ عمل میں آتے۔
۶ :- اگر عراق کے کویت پر حملہ کرنے ارو کسی دوسرے عرب ملک کی طرف بھی حوصلہ مندی کی نگاہ اٹھانے کے جواز میں یہ کہا جائے کہ ان بلادِ عربیہ کی زندگی خود ایسے تادیبی اقدامات اور کارروائیوں کی عرصہ سے دعوت دے رہی تھی، اور یہ وہاں کی مترفانہ اور مسرفانہ زندگی کا نتیجہ ہے جس کی تصدیق قرآن وحدیث کے بیانات سے ہوتی ہے؛ لیکن یہ جواز بیحد بودا ہے، اس صورتِ حال کا علاج یہ نہیں تھا کہ ایک بڑا ملک ایک چھوٹی ریاست پر اندھا دھند حملہ کردے اور بلا کسی اصلاحی مقصد ودعوت کے اس پر قبضہ جمالے، اس کا علاج صحیح اسلامی دعوت وتحریک، احیائے دین کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش، اپنی جگہ پر صحیح اسلامی نظام حکومت وطرزِ معاشرت کا قیام، صالح نظام تعلیم وتربیت اور ایک معیاری مثالی واسلامی معاشرہ اور ماحول کی موجودگی ضروری ہے جو دنیا کے لئے جاذبِ نظر اور قابل رشک ہو۔ افسوس ہے کہ حملہ آور عراق کے پاس ان میں سے کوئی امتیاز وخصوصیت نہیں پائی جاتی اس لئے اس کا کوئی شرعی واخلاقی جواز نہیں تھا۔ (کاروانِ زندگی ۴؍۲۷۴-۲۷۸ مختصراً)