بہت قریب سے انہیں دیکھا اور استفادہ کیا۔
مولانا حیدر حسن خاں صاحب پکے حنفی عالم تھے، امام ابوحنیفہؒ سے ان کی محبت وعشق وعقیدت اور مذہب حنفی سے عقیدہ کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی، امام صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے بسا اوقات ان پر رقت طاری ہوجاتی تھی؛ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ شدت سے حدیث کی ضرورت اور حجیت کے نہ صرف قائل؛ بلکہ داعی اور اتباع سنت پر عامل تھے، وہ مذہب حنفی کو اقرب الی الحدیث سمجھتے اور ثابت کرتے تھے، یہ ان کا اعتدال تھا، جو مولانا علی میاں ؒ میں شدت سے منتقل ہوا، چناں چہ مولانا پکے حنفی ہونے کے ساتھ ہمیشہ وسیع الذہن رہے؛ لیکن یہ وسعت عمل بالحدیث کی ان شکلوں تک کبھی نہیں پہنچ سکی جو آج مے مدعیان عمل بالحدیث (غیرمقلدین) نے ایجاد کررکھی ہیں ۔
ندوۃ العلماء ہی میں مولانا نے مشہور فقیہ مولانا شبلی جیراج پوری سے بھی فقہ میں کچھ استفادہ کیا، شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ سے مولانا نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ مولانا نے خود تحریر فرمایا ہے:
’’اگر مولانا احمد علی صاحب سے ملاقات نہ ہوتی، تو میری زندگی اچھی بابری بہرحال موجود زندگی سے بہت مختلف ہوجاتی، اور شاید اس میں ادب وتاریخ اور تصنیف وتالیف کے سوا کوئی ذوق اور رجحان نہ پایا جاتا، خداشناس اور خدا رسی، راہ یابی اور راست روی تو بڑی چیزیں ہیں ، مولانا کی صحبت میں کم سے کم خدا طلبی کا ذوق، خدا کے نام کی حلاوت اور مردانِ خدا کی محبت، اپنی کمی اور اصلاح وتکمیل کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۱۳۴)
مولانا احمد علی لاہوری مولانا عبیداللہ سندھی کے مایہ ناز شاگرد اور ان کے طرز تعلیم ومسلک تفسیر کے حامل وجانشین تھے، حضرت مولانا علی میاں ؒ کی شیخ لاہوریؒ سے پہلی ملاقات مئی ۱۹۲۹ء میں مولانا سید محمد طلحہ حسنی کے واسطہ سے ہوئی، تعارف ہوا تو شیخ لاہوریؒ نے بڑی شفقت وعنایت کا معاملہ فرمایا۔ دوسرے سال ۱۹۳۰ء میں حضرت مولانا نے لاہور جاکر مولانا لاہوریؒ سے مستقل وقت لیا جو انہوں نے از راہِ شفقت عنایت فرمایا اور سورۃ البقرہ کا شروع کا حصہ