’’ثقافت‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، ان کا بہت بڑا حصہ ہے، ان کا ایک بڑا تعلیمی فیض یہ تھا کہ اپنی تحریر کو باربار شک وتنقید کی نگاہ سے دیکھنے، عربی الفاظظ وصلات کے صحیح استعمال کا اطمینان کرنے اور ومعاجم (کتب لغت) کی طرف بار بار مراجعت کرنے کی عادت پڑگئی، عربی کے ایک مضمون نگار کی حیثیت سے جس کی تحریروں کے اصل مخاطب اہل عرب تھے، مجھے ان کے تشکک اور احتیاط سے بڑا فائدہ پہنچا، ان کی مجلسوں میں سلف کی عظمت، متقدمین کے مراتب سے واقفیت اور ائمہ اہل سنت ومحدثین کی محبت وعقیدت ضرور پیدا ہوجاتی تھی، اس بارے میں ذاتی طور پر مجھ پر ان کا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے صحابہ وسلف کی عظمت اور ائمہ محدثین اور سنت کے علم برداروں کی محبت وعقیدت ایسی دل میں جاگزیں کردی کہ کسی دو رمیں بھی کوئی مطالعہ وتحقیق اور کوئی صحبت اس پر اثر انداز نہیں ہوئی‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۲۳۶- ۲۴۷-۲۴۸مختصراً)
حضرت مولانا نے ان کے ساتھ متعدد اسفار کئے، لاہور میں تو ان کا قیام ہی تھا، وہاں کی مشہور شخصیات (مثلاً شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ اور علامہ اقبالؒ وغیرہ) سے مولانا کی ملاقات انہیں کے توسط سے ہوئی، مولانا اپنی تصنیفات ان کو بھیجتے، تو وہ ان کا مطالعہ کرکے اپنے تأثرات روانہ کرتے، جس میں بعض اصلاحات بھی ہوتیں ، ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کا آٹھواں حصہ مولانا کے تکملہ کے ساتھ منظر عام پر آیا، تو انہوں نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے مکتوب میں اعتراف فرمایا کہ کتاب کی تکمیل کرنے والا اپنی پیوند کاری میں بڑی حد تک کامیاب ہوا ہے، انہوں نے بارہا مولانا کو مبارک باد دی اور کہا: ’’تم نے عربی زبان اور دینی علوم ہی کو مضبوطی سے پکڑا اور یک درگیر محکم گیر پر عمل کیا‘‘۔ مولانا کا ان سے تعلق بڑا قدیم تھا جو ان کی وفات ستمبر ۱۹۷۰ء تک باقی رہا۔ندوۃ العلماء میں طالب علمی کے دوران مولانا نے وہاں کے شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی سے بھی استفادہ کیا، ان سے مولانا کا ربط ۱۹۲۹ء میں شروع ہوا، جب مولانا نے ندوۃ العلماء میں باضابطہ داخلہ لیا اور صحیح بخاری ومسلم وابوداؤد وترمذی حرفاً حرفاً ان سے پڑھی، اس کے ساتھ ہی بیضاوی اور منطق کے اسباق بھی پڑھے، ایک عرصہ تک مولانا اپنے اس محبوب استاذ کے ساتھ ان کے کمرہ میں مقیم رہے اور