احمد سعید صاحب، ندوۃ العلماء کے انگریزی استاذ ماسٹر محمد سمیع صدیقی (ایم اے ایل ٹی) جناب محمد فاروقی صاحب استاذ شعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی وغیرہ سے حاصل کی، اور بڑی مہارت پیدا کی۔ علامہ سید سلیمان ندوی سے بھی مولانا نے ندوہ میں تدریس کے دوران فلسفۂ قدیم سے متعلق کوئی کتاب پڑھی، اور یونانی فلسفہ سے واقف ہوئے، علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی سے بھی مولانا نے بہت استفادہ دورانِ تدریس کیا، دیوانِ نابغہ پڑھا اور ادب عربی کی تدریس کے زریں اصول اخذ کئے، خواجہ عبدالحئ فاروقی (جو مشہور مفسر مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے شاگرد رشید اور مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بعد مولانا سندھی کے علمی جانشین تھے) سے مولانا نے ۱۹۲۷ء میں قرآنِ مجید کے اخیر پارے کی کچھ سورتیں پڑھیں ، خواجہ صاحب مولانا کے برادر بزرگ ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحبؒ کے دیوبند میں ہم سبق وہم مذاق رہ چکے تھے، خواجہ صاحب ہی سے مولانا نے شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کا نام پہلی بار سنا تھا، مولانا کے اساتذہ میں مولانا عبدالحلیم صدیقی کا نام بھی آتا ہے، جن سے مولانا نے دیوانِ سقط الزید پڑھا۔ دارالعلوم دیوبند میں مولانا نے حضرت مدنیؒ سے حدیث، حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علیؒ سے فقہ اور جناب قاری اصغر علی صاحب مرحوم سے تجوید کا درس لیا، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
اپنے پھوپھا مولانا سید محمد طلحہ حسنی سے بھی مولانا نے بہت استفادہ کیا، مولانا کی صرف ونحو کی عملی صلاحیتیں زیادہ تر انہیں کی رہین منت ہیں ، مولانا نے ان سے ادب وزبان کی کتابیں بھی پڑھیں ، اور انہیں کی تربیت سے سیبویہ کی ’’الکتاب‘‘ زمخشری کی ’’المفصل‘‘ ابن حاجب کی ’’شافیہ‘‘ اور اس کی شرح رضی اور سیوطی کی ’’المزاہر‘‘ کا مطالعہ بھی کیا، حضرت مولانا نے ان کے بارے میں لکھا ہے:
’’مجھے ان کی کتابی تعلیم سے زیادہ ان کی علمی صحبتوں سے نفع پہنچا، اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ میرے ذہن کی تربیت وتشکیل اور میرے ذوق ومعلومات میں جس کو ایک مفرد لفظ