اسی سلسلہ میں ۲۶؍اپریل ۱۹۹۸ء کو دینی تعلیمی کونسل کا ایک اہم اجلاس علی گڈھ میں بھی منعقد ہوا، جس میں مولانا نے اپنے بصیرت افروز خطاب کے آخر میں فرمایا کہ:
’’جو قوم خود فیصلہ نہیں کرسکتی، دنیا کی ساری تدبیریں ، حکمت وسائنس؛ بلکہ طاقتور اور سلطنتیں بھی اس قوم کی مدد نہیں کرسکتیں ، جن قوموں نے اپنے ضمیر کے ساتھ، اپنے عقیدے اور اپنے ایمان کے ساتھ، ان اصولوں کے ساتھ جو ان کو جان سے زیادہ عزیز تھے، باقی رہنے کا فیصلہ نہیں کیا، ان کا نام حرفِ غلط کی طرح لوحِ جہاں سے مٹادیا گیا، دنیا جس کو تاریخ کہتی ہے، یہ سلطنتوں کی تاریخ نہیں ہے، تہذیبوں کی تاریخ نہیں ہے، علم ودانش کی ترقی وفروغ کی تاریخ نہیں ہے، ذہانتوں کی تاریخ نہیں ہے، ایک جملہ میں یہ انسانی فیصلوں کی تاریخ ہے، فیصلوں نے سلطنتیں قائم کی ہیں اور مٹادی ہیں ، فیصلوں نے تہذیبوں کو پیدا کیا ہے اور تہذیبوں کا گلا گھونٹ دیا ہے، فیصلوں نے قوم کو دنیا کے ایک سرے سے اٹھاکر دنیا کے دوسرے سرے پر پہنچادیا ہے، اور عزم وفیصلہ کی غیرموجودگی نے جیتی جاگتی، دوڑتی بھاگتی، زندہ اور توانا قوم کو بے جان مجسموں کی طرح باقی رکھا اور مردوں کی طرح دفن کردیا:
نشاں یہی ہے زمانہ میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمالِ صدق و مروت ہے زندگی اُن کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
خودی سے مرد خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے باقی تمام تفسیریں
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
(کاروانِ زندگی ۷؍۱۳۴-۱۳۵)
وندے ماترم کے مسئلہ پر بہت سے اخبارات، ریڈیو، ٹی وی کے نمائندوں اور نامہ نگاروں نے ۱۹؍نومبر ۱۹۹۸ء کو تین بار مولانا سے انٹرویو لیا، جس میں مولانا نے اپنے سخت