ریاستی حکومت کی سرکاری نصابوں کا قومی یکجہتی کے نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا، مولانا نے اپنے خطاب میں نصابِ تعلیم میں زہر آلود مضامین کی شمولیت کے خطرات اور دینی تعلیم کی اہمیت وضرورت اور علماء ومفکرین کی ذمہ داریوں پر مشتمل بڑی قیمتی باتیں فرمائیں ، جن کا اچھا اثر محسوس کیا گیا۔
۱۶؍دسمبر ۱۹۹۳ء کو دارالعلوم الاسلامیہ بستی کے زیراہتمام ایک دینی تعلیمی کانفرنس میں حضرت مولانا تشریف لائے اور مدرسہ کے وسیع احاطہ میں ہزاروں افراد کے مجمع میں ’’ایمان جان سے زیادہ عزیز ہونا چاہئے‘‘ کے عنوان پر بڑا پرمغز اور جامع خطاب فرمایا (بستی کی دینی تعلیمی کانفرنسوں منعقدہ ۱۹۸۳ء و۱۹۹۳ء میں مولانا کے خطبات ’’دین وعلم کی خدمت اور ایمانی تقاضے کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے مولانا محمد اسعد قاسمی کی ترتیب کے ساتھ مرکز دعوت وارشاد دارالعلوم الاسلامیہ بستی سے طبع ہوچکے ہیں )
۲۸؍اپریل ۱۹۹۴ء کو کونسل کا سالانہ اجلاس نجیب آباد میں منعقد ہوا، مولانا نے اپنا مطبوعہ خطبۂ صدارت ’’ملی عزیمت اور اجتماعی فیصلہ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔
۱۹۹۷ء میں جب حکومت اترپردیش کی طرف سے صوبہ کو ہندو دیومالا اور تعلیمی وثقافتی حیثیت سے ایک برہمن ہندو تہذیب بنادینے کے تعلیمی وثقافتی سطح پر اقدامات وانتظامات کھل کر سامنے آئے، جس کی علامتوں میں وندے ماترم جیسے مشرکانہ گیت اور صنمی ترانہ کا اسکولوں میں واجبی طور پر پڑھانا اور ہندوستان کی تصویر پر پھول چڑھانا اور ادب سے سرجھکانا داخل تھا، اس نازک صورتِ حال کے خلاف احتجاج کے لئے ۸؍فروری ۱۹۹۸ء کو ندوۃ العلماء میں دینی تعلیمی کونسل کا ایک اہم نمائندہ اجلاس منعقد ہوا، حضرت مولانا نے اس میں بڑی ولولہ انگیز تقریر کی اور ارکان کو بیدار ہوکر عزمِ نو کے ساتھ مثبت انداز میں اپنا کام انجام دینے کی دعوت دی۔