یکم ودو جون ۱۹۸۹ء کو کل ہند دینی تعلیمی کنونشن منعقد کیا، اس میں بڑی تعداد میں علماء مفکرین اور دانشور جمع ہوئے، مولانا نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں اس قانون کی مخالفت کے ساتھ دینی مدارس کے ذمہ داروں کو قناعت تاور عوام سے مکمل ارتباط اور ایثار وقربانی کی دعوت دی، مولانا کے خطاب کا آخری اقتباس ملاحظہ ہو:
’’لیکن اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور مدارس ومکاتب کے کارکنوں وخدمت گذاروں کو کسی نہ کسی درجہ میں ایثار وقناعت سے کام لینے اور ایمان واحتساب کے ساتھ اس چراغ کو روشن رکھنے اور اس کی روشنی دور دور اور دیر دیر تک پہنچاتے رہنے کی کوشش وجانفشانی بھی جاری رکھنی چاہئے کہ اس دین کا ماضی، حال اور مستقبل ایمان ویقین، ایثار وتوکل اور عزم وہمت سے وابستہ رہا ہے اور رہے گا، اور یہی جوہر ہر طرح کے بدلے ہوئے حالات اور تیز وتند آندھیوں میں اس چراغ کو گل ہونے سے بچاتا رہا ہے اور بچاتا رہے گا۔ بقول اقبالؒ:
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دئے ہیں اندازِ خسروانہ
میں مزید اقبالؒ کے ان اشعار پر گذارش کا اختتام کرتا ہوں کہ:
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم‘‘
(کاروانِ زندگی ۴؍۸۷)
اس موقع پر رات کے جلسہ عام میں بھی مولانا نے بے حد اہم تقریر فرمائی، اس کے بعد ۱۲؍جون ۱۹۹۲ء کو انجمن تعلیمات دین مرادآباد کے زیراہتمام ایک دینی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں مولانا نے اپناوقیع (مطبوعہ) خطبۂ صدارت پیش کیا۔
نومبر ۱۹۹۳ء میں لکھنؤ میں ایک کل ہند دینی تعلیمی کنونشن کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں