کا تعاون اخیر تک جاری رہا، اور مولانا ہر دنور میں اسے مسلمانوں کی ایک بڑی ملی خدمت اور وقت کا تقاضا سمجھتے رہے۔
جنوری ۱۹۶۱ء میں لکھنؤ میں ، نومبر ۱۹۶۱ء میں ٹونک راجستھان میں اور جون ۱۹۶۴ء میں الٰہ آباد میں دینی تعلیمی کونسل کی تین زبردست کانفرنسیں ہوئیں ، مولانا نے ہر موقع پر بحیثیت صدر مؤثر خطبہ دیا۔ ۱۹۶۳ء کے اواخر تتک کونسل کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا تھا کہ آٹھ ہزار مکاتب قائم ہوگئے تھے جن میں چار لاکھ طلبہ تعلیم پارہے تھے۔
کونسل کے فعال ارکان میں ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی کا نام سرفہرست ہے، جو ۱۹۸۰ء میں قاضی محمد عدیل صاحب کے سانحۂ ارتحال کے بعد سے اب تک جنریل سکریٹری ہیں اور اپنی ذمہ داریاں بڑے نشاط وجوش کے ساتھ انجام دے رہیں ہیں ۔
فروری ۱۹۸۳ء میں بستی میں ایک اہم دینی کانفرنس منعقد ہوئی، مولانا تشریف لائے اور ت’’دین وایمان کو جسم وجان پر ترجیح دینا ایمانی تقاضا ہے‘‘ کے عنوان سے ایمان افروز خطاب فرمایا، اس کے بعد نومبر ۱۹۸۶ء میں بنارس میں کونسل کی چھٹی صوبائی کانفرنس ہوئی، جس میں نمائندوں اور ارکان کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
۱۹۸۹ء میں ریاست اترپردیش میں دو قانون ایسے سامنے آئے جو ان مکاتب ومدارس کے تعطل کا ذریعہ بن سکتے تھے، پہلا مسئلہ مکاتب ومدارس کے لئے کم سے کم اجرت کے قانون اور رجسٹریشن (Minimum Wages) کا تھا، تجس سے ان اداروں کا وجود خطرہ میں نظر آنے لگا، جونیئر ہائی اسکنول کو اقلیتی حیثیت نہ دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا، بڑے عصری تعلیمی ادارے بھی اس سے محروم رکھے گئے۔ دوسرا مسئلہ عربی مدارس کی اقامت گاہوں کو یتیم خانوں کے زمرہ میں شامل کرکے انہیں رجسٹریشن کا پابند کرنے کا تھا، اس نازک صورتِ حال کے خلاف قانون کی منسوخی کی آواز اٹھائی گئی، اور دینی تعلیمی کونسل نے لکھنؤ میں