داری، نامذہبیت، غیرجانب داری اور سب فرقوں کے ساتھ یکساں معاملات کا مطالبہ کیا جائے، دوسرا کام یہ تھا کہ مسلمان اپنے بچوں کی تعلیم کا نظم خود کریں ، ایسے مکاتب ومدارس کا قیام عمل میں آئے، جن میں اردو، عقائد ودینیات کی ابتدائی ٹھوس تعلیم کے ذریعہ اسلامی نقوش کو ذہنوں میں ثبت کردیا جائے۔
تعلیمی میدان میں ان خطرات کا احساس سب سے پہلے ضلع بستی کے ایک بالغ نظر دانشور قاضی محمد عدیل عباسی کے دل میں پیدا ہوا، رفتہ رفتہ یہ احساس ان کے ذہن واعصاب پر ایسا مستولی ہوگیا کہ انہوں نے اپنی ساری توانائیاں اور ذہنی صلاحیتیں اسی میں صرف کریں ، ایک عرصہ تک وہ ضلع بستی ہی کے حدود میں اس خطرہ کا مقابلہ اور مکاتب قائم کرنے کا کام خاموشی سے کرتے رہے؛ لیکن پھر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنے بعض رفقاء کے ساتھ مل کر قاضی صاحب سے کام کا دائرہ وسیع کرنے اور کم از کم صوبائی پیمانہ پر کام انجام دینے پر اصرار کیا۔ ۳۰-۳۱؍دسمبر ۱۹۵۹ء اور یکم جنوری ۱۹۶۰ء کو بستی میں ایک صوبائی عظیم دینی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا، صوبہ کے باہر سے بھی دانشور اور تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے حضرات بڑی تعداد میں تشریف لائے، مولانا بھی اس کانفرس میں شریک ہوئے، اور اپنا وقیع مقالہ پیش کیا۔ اجلاس میں دینی تعلیمی کونسل کاقیام عمل میں آیا اور اس کی صدرت کے لئے باتفاق رائے حضرت مولانا ہی کا انتخاب ہوا، مولانا تاحیات کونسل کے صدر رہے، قاضی محمد عدیل صاحب عباسی کو جنرل سکریٹری بنایا گیا اور انہیں ایڈوکیٹ ظفر احمد صدیقی کی صورت میں اپنا ایک سرگرم ومخلص معاون مل گیا، کونسل کی سرگرمیاں جاری رہیں ، مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار اور بنیادی مقاصد کے لئے جب خطرات پیدا ہونے لگے تو حضرت مولانا اور کونسل کے تمام ارکان وذمہ داران نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، لکھنؤ کے علیگ حلقہ نے اسے ایک تحریک کی شکل دی تھیں ، جس کے ساتھ مولانا