پیامِ انسانیت کی یہ صدا پوری بیسوی صدی میں مولانا کے علاوہ کسی نے اتنے مؤثر، پرجوش اور منظم انداز میں نہیں لگائی، یہ مولانا کا عظیم ترین کارنامہ اور امتیاز ہے۔ مولانا نے پیامِ انسانیت کو مقبول بنانے کے لئے نفسانیت کی رعایت کے ساتھ بڑا دل کش اسلوب اختیار کیا تھا، پیامِ انسانیت کی اکثر تقریروں اور تحریروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کی ہوئی اس مثال کو بار بار دہرایا کہ ’’ایک کشتی کے سوار اگر دوسرے کو کشتی میں سورخ کرنے سے نہیں روکتے تو بالآخر سبھی ڈوب جائیں گے‘‘۔ (ماہنامہ ’’نیادور‘‘ ص: ۵، لکھنؤ مارچ ۲۰۰۰ء)
اپنی تقریروں میں مولانا نے یہ بات بھی باربار دہرائی کہ:
’’اگر کانٹے کے جواب میں سبھی کانٹے بچانے لگیں تو ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے، اس لئے کانٹوں کے جواب میں پھول بچھانے کی کوشش کرنی چأہئے؛ تاکہ ہر طرف پھول ہی پھول ہوں ‘‘۔ (ماہنامہ ’’نیادور‘‘ ص: ۶، لکھنؤ مارچ ۲۰۰۰ء)
مولانا نے جگرؔ مرادآبادی مرحوم کے ان اشعار کو بارہا اپنی تقریروں کا موضوع بنایا:
چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں
کہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئے
یہ مے کدہ کی یہ ساقی گری کی ہے توہین
کوئی ہو جام بکف کوئی شرم سار آئے
خلوص و ہمتِ اہلِ چمن پہ ہے موقوف
کہ شاخ خشک میں بھی پھر سے برگ و بار آئے
پیامِ انسانیت کے تعلق سے مولانا نے اپنا پیغامِ محبت جہاں تک ممکن تھا پہنچایا، تقریروں اور مقالات کے علاوہ ذاتی مجلسوں ، وزراء واعیانِ حکومت اور دانشوروں سے ملاقاتوں اور گفتگو میں بارہا مولانا نے عدم تشدد (Nonviolenoe) جمہوریت (Democracy) اور نامذہبیت (Secularism) کے اصول یاد دلائے۔