مولانا نے دل کھول کر اپنی بات کہی اور اپنا پیغام پہنچایا، اسی کے بعد اکتوبر ۱۹۹۴ء میں لکھنؤ میں ایک اہم اجلاس اِسی موضوع پر ہوا، جس میں مولانا نے یہ پیام دیا کہ اس وقت ملک کو بربادی سے بچانے کے لئے دیوانوں کی ضرورت ہے، مولانا کی اس تقریر کا بڑا اچھا اثر محسوس کیا گیا۔ ۸؍جون ۱۹۹۸ء کو پونہ میں بھی پیام انسانیت کا ایک اجلاس بلایا گیا، مولانا نے اس مؤقر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انسان سے انسان کی نفرت کو سب سے بڑا خطرہ اور اس کے سدِ باب کی کوشش کو سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا۔ ۱۴؍نومبر ۱۹۹۸ء ہی کو بہار کے مشہور شہر گیا میں ایک عظیم الشان جلسہ پیام انسانیت کے تعلق سے ہوا، مختلف تنظیموں اورمذہبی وعلمی مراکز کے ہندو ذمہ دار بڑی تعداد میں شریک ہوئے، مولانا نے اپنے خطاب میں اعتدال (Normalcy) کے ساتھ زندگی گزارنے کی دعوت دی، یہ تقریر بڑے سکون واطمینان کے ساتھ سنی گئی۔ اس کے بعد یکم مارچ ۱۹۹۹ء کو بنگلور میں بھی پیامِ انسانیت کا ایک کامیاب اجلاس ہوا، جس میں مولانا نے بڑا بصیرت افروز خطاب کیا، پیامِ انسانیت کے عنوان سے غالباً یہ مولانا کا سب سے اہم آخری خطاب تھا۔
اس کے علاوہ مولانا نے اپنی مختلف کتابوں میں بھی بنیادی موضوع تعمیرِ انسانیت، ایک بہترین انسانی سماج کی تشکیل اور انسانوں کی صلاح واصلاح کو بنایا ہے، جس کے واضح نمونے ان کی مشہور تصانیف ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر، تہذیب وتمندن پر اسلام کے اثرات واحسانات، انسانی علوم کے میدان میں اسلام کا انقلابی وتعمیری کردار، انسانت کے محسن اعظم‘‘ وغیرہ میں ملتے ہیں ۔
پیامِ انسانیت کی یہ تحریک (بعض مخالفین کے پروپیگنڈوں کے باوجود) اپنی نوعیت کی پہلی، بے انتہا ضروری، اہم اور کامیاب تحریک تھی جو کسی خوفزدہ اورمرعوب ذہنیت کی پیداوار نہ تھی؛ بلکہ ملک وقوم کی خیرخواہی وخیرسگالی پر مبنی ایک مثبت اصلاحی وتعمیری تحریک تھی،