کا بڑی مضبوطی سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی اور امن ومحبت کا پیغام دیا، جس کے بحمد اللہ اچھے نتائج سامنے آئے۔ ۲؍جولائی ۱۹۹۰ء کو لکھنؤ میں بھی ایک جلسہ بلایا گیا، جس میں دانشوران وسیاسی رہنما بڑی تعداد میں شریک ہوئے، مولانا نے بے انتہاء مؤثر تقریر کی اور اس بات پر زور دیا کہ غلطی کو غلطی نہ ماننا اور احساسِ جرم وگناہ ختم ہوجانا ہی سب سے خطرناک چیز ہے، یہ اجلاس بہت کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ دسمبر ۱۹۹۰ء میں ضلع سلطان پور کی ایک دینی درس گاہ میں پیام انسانیت کے عنوان سے آنکھ کے آپریشن کا ایک مشترک کیمپ بھی لگایا گیا، جس میں سیکڑوں مریضوں کا مفت آپریشن بڑی کامیابی کے ساتھ ہوا، مولانا اس موقع پر وہاں تشریف لے گئے اور اپنے مختصر سے خطاب میں انسانیت کا پیغام پہنچایااور فرمایا کہ یہ عظیم ثواب کا کام ہے، جو منافرت وبے اعتمادی کی فضا کم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کا اندوہ ناک حادثہ پیش آیا، جس کی منظر کشی بے حد دشوار ہے، اس کے فوراً بعد ہی ممبئی، مہاراشٹر اور سورت کے ہولناک فسادات اور مسلمانوں کے ہوش ربا جانی ومالی نقصانات نے حضرت مولانا کو بے حد بے چین اور فکر مند کردیا، ملک میں اس اٹھتے ہوئے طوفان کے خلاف مولانا نے ۶؍جنوری ۱۹۹۳ء کو لکھنؤ میں ایک عظیم مخلوط مجمع کے سامنے بڑی مؤثر تقریر کی اور پوری صفائی اور جرأت کے ساتھ خطرہ کی گھنٹی بجانے اور قلب وضمیر پر چوٹ لگانے کی کوشش کی، یہ تقریر ’’ملک ومعاشرہ کا سب سے خطرناک مرض! ظلم وسفاکی‘‘ کے نام سے طبع ہوئی، اس میں مولانا نے ظلم وستم کی مذمت کا ذکر بہت اچھے انداز میں کیا۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’ملک کی تین چولیں اگر بیٹھ جائیں تو ملک باقی رہ جائے گا اور وہ تین چولیں ہیں : ’’ایجوکیشن، پولیس اور پریس‘‘ یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں کہ اگر یہ درست ہوجائیں تو پھر کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے‘‘۔ (ظلم وسفاکی ۲۳ مختصراً، از: مولانا علی میاں ؒ)
۳۰؍جون ۱۹۹۳ء کو پٹنہ میں ایک غیر معمولی تاریخی اجلاس ’’پیامِ انسانیت‘‘ کا ہوا،