دوسرا ڈائلاگ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۶ء کو ناگپور میں ہوا، مولانا کا مضمون ’’ملک ومعاشرہ انتائی خطرناک موڑ پر ہے‘‘ تقسیم ہوا، اس کے علاوہ مولانا کی کئی تقریریں ہوئیں ، یہ ڈائیلاگ کافی کامیاب اور مؤثر ثابت ہوا۔
اس کے بعد فروری ۱۹۸۷ء میں پونہ میں تیسرا ڈائیلاگ منعقد ہوا، جس میں مولانا کامقالہ ’’ملک کے بہی خواہوں کے سوچنے اور کرنے کی باتیں ‘‘ بڑے سکون وتوجہ سے سنا گیا، کئی بار تالیوں سے بھی سامعین نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
۲۹؍دمبر ۱۹۸۸ء کو حیدرآباد میں ’’پیامِ انسانیت‘‘ کی ایک کانفرنس میں مولانا شریک ہوئے اور اس کے خصوصی وعمومی جلسے بڑے کامیاب رہے۔ ۱۹۸۹ء میں بھاگلپور میں جو ہولناک ولرزہ خیز فساد ہوا اس نے ہر صاحب شعور انسان کے دل کو زخمی اور احساسات کو مجروح کردیا، موانا نے اس موقع پر ہندوستان کے ممتاز دانشوروں کے نام ایک پراثر خط لکھا، جس میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا، یہ خط مولانا کے احباب نے ہندوستان کے سربرآوردہ افراد تک پہنچایا، اسی موقع پر ایک تاریخ ساز کنونشن کا فیصلہ ہوا، جو ۱۷؍مارچ ۱۹۹۰ء کو دہلی میں منعقد ہوا، مولانا کا مؤثر وپرجوش خطاب اس اجلاس کی روح ثابت ہوا، مولانا نے اپنے خطاب میں فرمایا:
’’تاریخ کا باب ایک سویا ہوا ہے، شیر سوتا رہے آپ بغل سے اپنے راستہ سے نکل جائیے، شیر جگادینے پر آپ اپنا راستہ خود طے کرنے کے لائق نہیں رہ جائیں گے، فرقہ واریت کی نفرت میں آدمی خدا سے لڑتا ہے، کمہار گھڑے بناتا ہے، کبھی اس کے دو چار گھڑے توڑکر دیکھو تو کیا ہوتا ہے، انسان کو تو خدا نے بنایا ہے پھر بھی اس کی پرواہ کئے بغیر پاگل انسان انسانوں کو مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۴؍۱۹۶-۱۹۷ مختصراً)
۱۲؍جون ۱۹۹۰ء میں بنگلور میں ایک اجلاس ’’پیامِ انسانیت‘‘ کے تعق سے ہوا، مولانا نے اپنے خطاب میں تشدد (Violence) اور رشوت خوری وبدانتظامی (Corruption)