نمازوں کی پابندی، تلاوتِ قرآن کے شغف، دینی علوم سے تعلق خاطر اور انگریزی میں حد سے زیادہ انہماک سے بچاؤ، تواضع وحلم، کبر ونخوت سے اجتناب اور دوسروں کی تذلیل وایذاء سے بعد میں ان ہی کی تربیت کا اثر کار فرما رہا ہے، والدہ کا انتقال اگست ۱۹۶۸ء میں ہوا۔
مولانا کی دو ہمشیرہ تھیں ، ایک سیدہ امت العزیز صاحبہ (والدہ مولانا محمد ثانی حسنی ومولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ومولانا واضح رشید ندوی)
دوسری سیدہ امت اللہ تسنیم مصنفہ: ’’ہمارے حضور، قصص الانبیاء، زادِ سفر‘‘ تھیں ، ان کا انتقال جنوری ۱۹۷۶ء میں ہوا۔
مولانا کی شادی ۱۹۳۴ء میں ان کی ماموں زاد بہن سیدہ طیب النساء سے ہوئی، کوئی صلبی اولاد نہیں ہوئی، ان کا انتقال دسمبر ۱۹۸۹ء میں ہوا، مولانا کے بڑے بھانجے مولانا محمد ثانی حسنی کا انتقال فروری ۱۹۸۲ء میں ہوا۔
اس سے قبل مولانا کے برادر زادۂ عزیز مولانا محمد الحسنی کا انتقال جون ۱۹۷۹ء میں ہوچکا تھا۔
مولانا کا پورا خاندان علم وفضل، ورع وتقویٰ اور زہد واستغناء کے لحاظ سے ممتاز ہے۔
rvr