۱۹۸۰ء میں مرادآباد کے فرقہ وارانہ فساد سے (جو عیدگاہ میں دورانِ نماز عید پیش آیا) مولانا کے قلب ودماغ کو جو کوفت اور چوٹ پہنچی، اس کے پس منظر میں مولانا نے لکھنؤ کی بارہ دری میں پیام انسانیت کے عنوان سے ۲۷-۲۸؍اکتوبر ۱۹۸۰ء کو ایک اہم اجلاس بلایا، اجلاس میں مختلف خیالات ومذاہب کے لوگ شریک ہوئے، مولانا کا خطبہ (جو ’’ملک کا حقیقی مسئلہ اور اس کے لئے حققی خطرہ‘‘ کے عنوان سے کئی زبانوں میں شائع ہوا) اس اجلاس کا حاصل تھا، اس کے بعد اس عنوان سے مختلف جلسے مختلف موقعوں سے ہوتے رہے۔ مارچ ۱۹۸۵ء میں بندیل کھنڈ کے ایک دورہ کا پروگرام شروع ہوا جو حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی معاونت سے بڑا کامیاب ثابت ہا، اس عرصہ میں مولانا کو شدت سے یہ احساس ستارہا تھا کہ ملک کی اکثریت مسلمانوں کے بنیادی عقائد، ان کے دینی وملی مزاج وفطرت اور ان کے اہم ترین مسائل وجذبات سے بے حد ناواقف ہے، پھر منافرت انگیز لٹریچر، سیاسی پروپیگنڈوں ، زہر آلود ورنگ آمیز تاریخ اور بے تحقیق داستانوں کی بنا پر معاملہ نفرت واشتعال اور تذلیل وتحقیر کے جذبات تک پہنچ چکا ہے، نفقۂ مطلقہ کا مسئلہ جو بڑے زور وشور سے اٹھایا گیا تھا، اس میں بھی تلخ تجربات ہوئے تھے، جن کی وجہ سے یہ داعیہ مولانا کے دل میں بڑی قوت سے پیدا ہوا کہ اس مقصد کے لئے ڈائیلاگ (Dialogue) منعقد کرائے جائیں ۔
اس سلسلہ میں دہلی میں پہلا ڈائیلاگ ۴؍مئی ۱۹۸۶ء کو منعقد ہوا، مولانا کا مضمون ’’مسلمانوں کے مسائل وجذبات کو سمجھنے کی کوش کیجئے‘‘ کے عنوان سے طبع ہوچکا تھا جو پڑھا اور تقسیم کیا گیا، اس میں مسلم پرسنل لاء کی اہمیت کا ذکر بھی تھا اور پیام انسانیت کے تعلق سے مؤثر باتیں کہی گئی تھیں ، یہ ڈائیلاگ زیادہ کامیابی حاصل نہ کرسکا، ساری محنتوں اور کوششوں کے باوجود بھی فضا کے غیر معتدل ہونے کی وجہ سے غیرمسلم صحافیوں ، دانشوروں اور پارٹیوں کے رہنماؤں کی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی۔