کئی بار سوئے کوئی بار جاگے، یہ انسانیت کئی بار سوئی کئی بار جاگی، اور جاگی تو ایسی جاگی کہ اپنے سونے کی سب تلافی کردی‘‘۔ (دنیا میں آنے والے انسان چمن کے کانٹے ہیں یا پھول ۲۹)
پیامِ انسانیت کے سلسلہ کا سب سے کامیاب اور حیرت انگیز دورہ ۲۱؍مارچ تا ۳۱؍مارچ ۱۹۷۸ء میں ہریانہ وپنجاب کے ان علاقوں میں ہوا جو آزادی کے موقع پر بڑے حساس رہ چکے تھے، اور وہاں مسلمانوں کی آبادی برائے نام رہ گئی تھی؛ لیکن اس کاروانِ انسانیت کو کوئی خوش گوار تجربہ نہیں ہوا، چندی گڑھ کے عظیم اجلاس میں ہندوؤں ، مسلمانوں اور سکھوں کے عظیم مجمع واتحاد سے یہ اندازہ کیا گیا کہ اس کام کی کتنی گنجائش ہے اور کتنی ضرورت اور لوگوں میں اس کے قبول کرنے کی کتنی صلاحیت ہے؟
نومبر ۱۹۷۷ء کے اواخر میں اور دسمبر کے اوائل میں ایک دس روزہ دورہ ہندوستان کے وسیع ترین صوبہ مدھیہ پردیش کا ہوا تھا، یہ بھی بہت کامیاب ثابت ہوا تھا، اس کی تفصیلی روداد مولانا اسحق جلیس ندوی مرحوم کے قلم سے ’’تحفۂ انسانیت‘‘ کے نام سے طبع ہوچکی ہے، ہر جگہ اس پیام کا استقبال کیا گیا اور لوگوں کا یہ احساس رہا کہ ان مسلمانوں کو ہم سے زیادہ ملک کی سلامتی کی فکر ہے اور باہمی امن کے لئے تڑپ ہے۔
اس تحریک میں مولانا کے ساتھ کام کرنے والوں میں مولانا اسحق جلیس ندوی زیادہ پیش پیش تھے، ان کی زبان وقلم اس کے بہت مؤثر ترجمان بن گئے تھے، اس کے بعد مولانا محمد الحسنی کو بھی اس تحریک سے پوری مناسبت تھی، دونوں نے مل کر وہ حلف نامہ بھی تیار کیا جو ہر طبقہ پر حاوی اور ہمہ گیر ہے، تحریک کے تعارف میں بھی دونوں کا قلم یکساں رواں دواں تھا، مگر دونوں رفقاء ۱۹۷۹ء میں چند ہفتوں کے وقفہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کی جواں مرگی سے تحریک کو بڑا صدمہ پہنچا، مولانا کے دیگر معاونین میں قاضی عبدالحمید اندوری، پروفیسر انیس چشتی، جناب عبدالکریم پاریکھ صاحب کی کوششیں قابل قدر ہیں ، دیگر علماء نے بھی مولانا کا تعاون کیا اور ساتھ دیا۔