اخلاقی قیادت کے اس خلا کو پر کریں جو عرصۂ دراز سے اس ملک میں چلا آرہا ہے، کسی ملک میں کوئی اقلیت یا فرقہ اپنی واضح افادیت وضرورت اور بے لاگ اور بے غرض قیادت ودعوت کے بغیر عزت واطمینان کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ اقبالؒ نے صحیح کہا ہے:
ع: زندگی جہد است استحقاق نیست‘‘
(کاروانِ زندگی ۲؍۱۱۵)
چناں چہ بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، ہریانہ، پنجاب اور یوپی ہر جگہ کے کامیاب دورے ہوئے، مؤثر تقریریں ہوئیں ۔ مئی ۱۹۷۵ء میں لکھنؤ کے گنگا پرشاد میموریل ہال میں ایک جلسہ ہوا، اس میں مولانا نے بے حد مؤثر تقریر فرمائی جو ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ کے عنوان سے طبع ہوئی، ۱۶؍اپریل ۱۹۷۸ء کو سیوان میں ایک جلسہ عام ہوا، مولانا کی تقریر کا عنوا تھا ’’جب پڑھے لکھے آدمی پر ہسٹیر کا دورہ پڑتا ہے‘‘ اس تقریر کا آخری اقتباس کتنامؤثر اور طاقتور ہے۔
’’میں انسانیت کو سویا ہوا سمجھتا ہوں مرا ہوا نہیں سمجھتا، انسانیت سو بار سوئی سو بار جگائی گئی، آئیے ہم آپ سب مل کر سوئی ہوئی انسانیت کو جگائیں ، پہلے خود جاگیں پھر دوسروں کو جگائیں ، سویا ہوا سوئے ہوئے کونہیں جگا سکتا، ایک جاگتنا ہوا سیکڑوں سوئے ہوؤں کو جگادیتا ہے؛ لیکن سوسوئے ہوئے ایک سوئے ہوئے کو بھی جگا نہیں سکتے‘‘۔
(کاروانِ زندگی ۲؍۱۲۱)
۳۱؍دسمبر ۱۹۷۸ء کو مولانا نے مرادآباد کے ایک جلسہ پیامِ انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک سوال اٹھایا، پھر اسی کا جواب دیا، وہ سوال ہی تقریر کا عنوان بن گیا۔ دنیا میں آنے والے انسان چمن کے کانٹے ہیں یا پھول؟ اس تقریر کے آخر میں مولانا نے وہی بات دہرائی کہ:
’’مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ، خدا کا شکر ہے کہ ہمارا ملک سویا ہے، مرا نہیں ، سویا ہوا جگایا جاسکتا ہے؛ لیکن مرا ہوا جلایا نہیں جاسکتا، ہم سوئے ہیں مرے نہیں ، خدا کا شکر ہے ہم