کوشش شروع ہوئی اور مختلف ہندو مسلم مخلوط اجتماعات ہوئے، لکھنؤ، گورکھپور، جونپور، مئو اور غازی پور وغیرہ مشرقی اضلاع میں متعدد پروگرام ہوئے، مولانا کی یہ تقریریں ’’پیامِ انسانیت‘‘ اور ’’مقامِ انسانیت‘‘ کے عنوان سے طبع ہوئیں ۔ مولانا نے بڑے سلیقہ، احتیاط اور حکمت اور نفسیات کی رعایت کے ساتھ اپنی باتیں کہیں جو بہت پسند کی گئیں اور ان کی اثر پذیری کے عجیب واقعات بھی پیش آئے، تقریر ختم کرنے کے بعد سامعین کی طرف سے مزید سننے کی پیشکش بھی آئی، جسے مولانا نے قبول کیا، یہ سلسلہ بیچ میں مولانا کے بیرونی اسفار کی وجہ سے بند ہوگیا جسے شدتِ احساس کی وجہ سے مولانا نے اپنی اخلاقی کوتاہی اور قابل محاسبہ عمل سمجھا اور پھر طویل وقفہ کے بعد دسمبر ۱۹۷۴ء میں یہ کام الٰہ آباد سے شروع ہوا، مولانا کے یہ تجربات واقدامات (اس درجہ کامیابی وتاثیر کے بعد) ۱۹۷۴ء میں ’’پیامِ انسانیت‘‘ کی تحریک کی شکل اختیار کرگئے۔ مولانا لکھتے ہیں :
’’بہت انتظار کرنے کے بعد اپنی بے سروسامانی، تنہائی وبے اثری کا پورا علم واحساس ہونے کے باوجود ہم نے میدان میں آنے اور بلاتفریق مذہب وملت اس ملک کے رہنے والوں کے دلوں پر دستک دینے کا فیصلہ کیا کہ جب کسی محلہ یا گاؤں میں آگ لگتی ہے تو کوئی اپنی کمزوری اور بے نوائی کو نہیں دیکھتا، گونگے بھی چلاّ اٹھتے ہیں اور اپاہج بھی دوڑ پڑتے ہیں ‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۲؍۱۱۱)
اس تحریک کے قیام کے بعد ایک انٹرویو میں مولانا نے اس تحریک کے بارے میں اپنے احساسات ظاہر کئے اور اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا مسلمانوں کو من حیث الجماعۃ بھی اس دعوت وتحریک سے کچھ فائدہ پہنچے گأ؟ فرمایا:
’’میرے نزدیک مسلمانوں کو من حیث الجماعۃ اس کا کچھ بھی فائدہ نہ پہنچے اور ملک کو فائدہ پہنچ جائے، جب بھی اُن کو یہ کام کرنا چاہئے، وہ اپنے دین ومنصب کے لحاظ سے اس کے لئے مامور ہیں اور ملک کے ہر فائدے میں شریک؛ لیکن میرے نزدیک مسلمانوں کے لئے اس ملک میں باعزت طریقہ پر رہنے کا یہی راستہ ہے کہ وہ اپنی افادیت ثابت کریں اور