اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے
حضرت مولانا کا یہ احساس تھا کہ:
’’فطری طور پر آدمی اپنے اس گھر کی بربادی نہیں دیکھ سکتا، جہاں اسے رہنا ہے اور جہاں اس کی عزیز متاع اور اُس کی زندگی کی پونجی ہے، اور جس کے بنانے اور سنوارنے پر اس کی اور اس کے اسلاف کی بہترین صلاحیتیں اور توانائیاں صرف ہوئی ہیں ، یہ ہر سلیم الفطرت؛ بلکہ صحیح الفطرت انسان کا خاصہ ہے کہ جس کشتی پر وہ سوار ہے اس میں وہ کسی کو سوراخ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا اور جس شاخ پر اس کا نشیمن ہے، عقل وہوش کے عالم میں نہ خود اس پر تیشہ چلا سکتا ہے، اور نہ کسی کو تیشہ زنی کی اجازت دے سکتا ہے‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۲؍۱۱۰)
روز مرہ کے مشاہدہ میں ملک میں اخلاقی انارکی، قومی واجتماعی خود کشی، بے دردی کے ساتھ اخلاقی وانسانی قدروں کی پامالی، خود غرضی وخود پرستی کا جنون، انسان کی جان ومال اور عزت وآبرو کی انتہا درجہ بے قدری، حقیر شخصی فوائد اور مادی منافع کے لئے اجتماعی وملکی مفادات کی بآسانی قربانی، احساسِ ذمہ داری کا فقدان، زندگی کے تمام شعبوں میں بے عنوانی، فرقہ وارانہ منافرت اور باہمی کشمکش اور رسہ کشی کے جو ہول ناک اور دل سوز مناظر سامنے آرہے تھے، ان کو دیکھ کر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے دل میں قلق واضطراب کے ساتھ اس فضا کو ختم کرنے کا احساس وجذبہ بڑھتا گیا، حجاز ومصر وشام وغیرہ کے طویل ترین سفر سے واپسی کے بعد مولانا نے ۱۹۵۲ء میں بڑی قوت اور جوش عمل کے ساتھ اپنی دعوتی سرگرمیاں شروع کیں ، ہندوستان کی غیر مسلم اکثریت کو حق وانصاف کی بات بتانے اور راہ دکھانے اور ایک صاف ستھرا اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کا خیال مولانا کے دل میں آیا، مولانا نے ایک مضمون ’’ہندوستانی سماج کی جلد خبر لیجئے‘‘ کے عنوان سے لکھا اور ملک کے تقریباً تمام سربرآوردہ سیاسی رہنماؤں اور وزراء کو بھیجا، اس کے بعد پھر ۱۹۵۴ء میں یہ