امیدواروں کی حمایت کی جن سے مسلمانوں کو شکایات تھیں ، کانگریس کی سب سے زیادہ مخالفت یوپی میں ہوئی۔
اس مختلف طرز عمل نے مجلس کی صفوں میں بڑا انتشار پیدا کردیا اور مجلس کا شیرازہ بکھرتا نظر آیا، نتائج کے اعلان کے بعد مجلس کا اجلاس اپریل ۱۹۶۷ء میں دہلی میں منعقد ہوا، مجلس اس وقت موت وحیات کی کشمکش سے گذر رہی تھی اور اس کا خاتمہ قریب تر نظر آرہا تھا، ڈاکٹر صاحب نہایت بددل تھے، سب کے دل شکایتوں سے لبریز تھے؛ لیکن اللہ کا کرم ہوا، ڈاکٹر صاحب کو استعفا دینے سے روکا گیا اور مشتعل جذبات میں سکون پیدا ہوا، اور اس طرح کے انتشار سے بچنے کے لئے یہ تجویز آئی کہ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور ان کے رفقاء کو یوپی میں ایک سیاسی تنظیم قائم کرنے کی اجازت دی جائے، جو آئندہ انتخابات میں اسی کے نام سے حصہ لے اور یہ طے پایا کہ یہ مجلس اس وفاق کی اسی طرح رکن رہے گی جیسے مسلم لیگ وغیرہ سیاسی جماعتیں ہیں ، ڈاکٹر عبدالجلیل کو اس تجویز کے مطابق عمل پر آمادہ کرنے کا کام حضرت مولانا کے ذمہ ہوا، جو انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا، چناں چہ جون ۱۹۶۷ء میں مسلم مجلس قائم ہوگئی اور اس طرح سارے گلے دور ہوگئے۔
لیکن ڈاکٹر سید محمود مرحوم میں اب پہلی جیسی امنگ اور ولولہ نہیں رہا، وہ مستقل مریض بھی چل رہے تھے، چناں چہ انہوں نے مجلس کے ایک جلسہ میں ہزارہا سفارش وگذارش کے باوجود استعفا دے دیا اور حضرت مولانا سے صدارت کا منصب قبول رکنے کے لئے اصرار کیا، مگر مولانا اس پر راضی نہ ہوئے اور باتفاقِ رائے مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی کو صدر منتخب کیا گیا، ۲۸؍ستمبر ۱۹۷۱ء کو ڈاکٹر محمود صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
۱۹۶۷ء کے بعد سے مجلس مشاورت میں وہ روح، جوش وخروش اور فعالیت باقی نہیں رہی جو اس کے تاریخ ساز دوروں اور تعمیری سرگرمیوں میں تھی، مفتی عتیق الرحمن صاحبؒ نے