’’شاید میرے جوابات میں کچھ طویل وقفہ ہواتھا، اس پر مولانا نے اپنے شکایتی خط میں عربی کا یہ شعر لکھا جس سے ان کے خصوصی تعلق اور مناسبت کا کسی قدر اندازہ ہوتا ہے:
ستقطع فی الدنیا إذا ما قطعتنی
یمینک فانظر أی کف تبدل
ترجمہ: تم نے اگر ہم سے قطع تعلق کرلیا تو گویا اپنے دست راست کو اپنے سے جدا کردیا، اب سوچ لو کہ اس ہاتھ کا نعم البدل کہاں سے لاؤگے۔
(پرانے چراغ ۳؍۲۱۶)
مولانا عمران خاں صاحب واپس لوٹے، ان کے استقبال میں ندوۃ العلماء میں ایک پروگرام ہوا جس میں حضرت مولانا علی میاں ؒ نے استقبالیہ خطاب کیا۔ ۱۹۴۰ء میں مولانا عمران صاحب نائب مہتمم پھر ۱۹۴۳ء میں مہتمم بنائے گئے، اور ۱۹۵۸ء تک اس منصب پر باقی رہے، اس کے بعد بھوپال منتقل ہوگئے۔ مولانا کے بقول:
’’ان کا دورِ اہتمام دارالعلوم کے نظم وضبط، انضباطِ اوقات، طلبہ پر اثر اور نظم واطاعت اور جس کو ایک مختصر اور اصطلاحی لفظ ڈسپلن (Dispiline) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، نمایاں طور پر ممتاز اور کامیاب عہد تھا‘‘۔ (پرانے چراغ ۳؍۲۱۷)
۱۹۴۰ء میں مولانا علی میاں ؒ مولانا محمد الیاس صاحبؒ اور ان کی دعوت سے بہت متأثر ہوئے، اس معاملہ میں ندوۃ العلماء کے لوگوں میں سب سے زیادہ رفاقت اور مشارکت مولانا عمران خاں صاحب کی رہی، سفر وحضر میں وہ بارہا ساتھ رہے، ۱۹۶۹ء میں ندوۃ العلماء کی اسٹرائک کے موقع پر مولانا علی میاں ؒ کو بے حد صدمہ تھا، مولانا عمران صاحب مولانا کو بھوپال لے گئے اور تسلی دتے کر بڑا غم ہلکا کیا۔ ۱۹۷۵ء میں ندوہ کے جشن تعلیمی کے انعقاد کے موقع پر اجلاس کے انتظامات کی عملی ذمہ داری حضرت مولانا رحمہ اللہ کی تحریک پر مولانا عمران خاں صاحب ہی کو دی گئی، جسے انہوں نے بڑی کامیابی سے انجام دیا اور جشن کے پہلے