مجدہم بانی ومہتمم دارالعلوم الاسلامیہ بستی کی تشجیع سے بڑا حوصلہ اورولولہ ملا۔
میری سعادت ہے کہ اس کتاب کی تصحیح واصلاح کے سلسلہ میں مجھے محترمی جناب مولانا ڈاکٹر شمس تبریز خاں صاحب مدظلہ ریڈر شعبۂ عربی لکھنؤ یونیورسٹی کا بے پایاں تعاون حاصل رہا ہے، میں ان حضرات کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں ، ان حضرات کے علاوہ میں برادرم مولانا محمد سالم صاحب قاسمی استاذ دارالعلوم الاسلامیہ بستی نیز عزیزم محمد احمد قاسمی سلمہ شریک شعبۂ افتاء دارالعلوم دیوبند کے تعاون کا بھی شکر گزار ہوں ۔
کتاب کے سلسلہ میں ایک عرض یہ بھی ہے کہ اس میں سوانح نگاری مقصود نہیں ہے؛ بلکہ صاحب سوانح کے تذکرہ کو ان کی حیات وسیرت وکردار کے بعض تاباں اور جاوداں پہلوؤں کی عکاسی اور تصویر کشی تک محدود رکھا گیا ہے، جو ان کے رتبہ بلند اور مقام عظیم کو اُجاکر کرتے ہیں ، اور جن سے اہل ایمان بھی استفادہ کرکے جوش وجذبہ اور احقاقِ حق وابطالِ باطل نیز ملک وملت کی اصلاح کے ذوق وشوق سے بہرہ یاب ہوسکتے ہیں ۔
دوسری عرض یہ ہے کہ عربی عبارتوں کے ترجمے عموماً خاکسار مصنف کے قلم سے ہیں ، اور جو ترجمے دوسروں سے اخذ کردہ ہیں ، ان کا حوالہ دے دیا گیا ہے۔
میں نے حسبِ مقدور یہ رعایت رکھی ہے کہ سارے اہم پہلو اس کتاب میں آجائیں ، ویسے بھی حضرت مولانا کے سلسلہ میں کوئی حرفِ آخر کہنے کا دعویٰ کیا بھی نہیں جاسکتا۔
شوق گر زندۂ جاوید نباشد عجب است
کہ حدیثِ تو دریں یک دو نفس نتواں گفت
محمد اسجد قاسمی ندوی
دارالعلوم الاسلامیہ بستی
۲۶؍جولائی ۲۰۰۰ء
Rvr