عربی ذوق کا اس وقت ندوۃ العلماء میں شہرہ تھا، عربی رسائل وجرائد کا مطالعہ کرنے کے لئے مولانا کئی بار ان کی قیام گاہ گئے، اس طرح یہ تعلق بڑھتا گیا، پھر ندوۃ العلماء میں تدریس کے زمانہ میں بھی ان دونوں رفقاء کا اجتماع رہا۔ ۱۹۳۲ء میں عربی پرچہ ’’الضیاء‘‘ نکلنا شروع ہوا، تو دونوں نے مل کر اس کے معیار کو بلند تر اور مقبول بنانے کی ساتھ ساتھ کوشش کی۔ ۱۹۳۷ء میں مولانا مسعود عالم صاحب ندوۃ العلماء سے علیحدہ ہوئے، مگر ربط برابر باقی رہا، اور بہت سی باتوں میں وہ مولانا کے ہم خیال بھی رہے، ۱۹۴۱ء میں مولانا مودودی لکھنؤ آئے اور مولانا علی میاں ؒ کے سامنے ایک عربی رسالہ کی تجویز رکھی اور ادارت کی ذمہ داری قبول کرنے کی دعوت دی، مولانا نے بلاتکلف مولانا مسعود عالم صاحب کا نام لے کر انہیں اس کام کے لئے سب سے زیادہ موزوں قرار دیا، چناں چہ خط وکتابت کے ذریعہ سے مولانا انہیں یہ ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ کرلیا، پرچہ تو جاری نہ ہوسکا؛ لیکن ۱۹۴۲ء میں مولانا مسعود عالم صاحب جماعت اسلامی کی عربی نشر واشاعت کے شعبہ کے ذمہ دار بن کر جالندھر گئے، اور ’’دارالعروبۃ للدعوۃ الإسلامیۃ‘‘ قیام کیا، جماعت اسلامی کے تئیں وہ شروع سے مخلص تھے اور جماعت کے استحکام وترقی میں ان کا بہت اہم رول رہا ہے۔
بعض نظریات میں اختلاف اور فکر ومسلک میں کچھ تفاوت کے باوجود مولانا مسعود عالم صاحب کا تعلق مولانا سے بڑا گہرا رہا اور محبت میں کبھی کمی نہ آئی، جماعت اسلامی کی مجلسوں میں جب بھی ذکر آیا، انہوں نے مولانا سے اور علامہ سید سلیمان ندویؒ سے محبت وقربت کا ایسی جرأت وصفائی کے ساتھ بلند الفاظ میں اظہار کیا جس سے دوسروں کو حیرت واستعجاب بھی ہوا۔ ۱۹۵۳ء میں مولانا مسعود عالم صاحب اسیر زنداں ہوئے، چار ماہ کے بعد رہا ہوئے، تو مولانا علی میاں ؒ نے مسرت وتہنیت کا ایک خط لکھا، جس کا مولانا مسعود عالم صاحب نے بڑا اچھا جواب دیا، لکھا: