مولانا محمد الیاس صاحبؒ کی تبلیغی تحریک سے دہلی کے بہت سے علماء کو روشناس کرانے میں مولانا علی میاں ؒ کا بڑا اہم کردار رہا ہے، مفتی صاحب کو بھی مولانا نے مرکز نظام الدین تشریف لانے پر آمادہ کیا، مولانا کا تعلق اس کے بعد مفتی صاحب سے بڑھتا گیا، بارہا ندوۃ المصنفین میں تشریف لے گئے، علامہ سید سلیمان ندویؒ کے انتقال کے بعد ندوۃ العلماء میں سید صاحب کی یاد میں ایک علمی اجتماع ۱۹۵۴ء میں منعقد ہوا، جس میں مفتی صاحب بھی تشریف لائے اور بڑا مؤثر خطاب فرمایا، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ اور ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کے جلسوں میں بھی مفتی صاحب سے بارہا ملاقاتیں اور صحبتیں رہیں ، اصل رفاقت اور ہم سفری ۱۹۶۴ء کے بعد ہوئی، راوڑکیلا، جمشید پور، رانچی اور کلکتہ کے فسادات کے بعد جب دردمند مسلمانوں کے دلوں کو ناقابل بیان صدمہ پہنچا، اور اس سلسلہ میں منظم ومتحد جدوجہد کی آواز ڈاکٹر سید محمود مرحوم نے اٹھائی اور علماء کرام (جن میں حضرت مولانا علی میاں ؒ اور مفتی صاحبؒ بھی سرفہرست تھے) کے ساتھ مل کر ۱۹۶۴ء میں مسلم مجلس مشاورت قائم کی، جس کی تفصیلات آگے آئیں گی، پھر اس کے بعد مشاورت کا پہلا کامیاب دورہ بہار واڑیسہ کا ہوا، جس میں مفتی صاحب مولانا کے ہمراہ شریک رہے۔ دسمبر ۱۹۶۴ء میں دوسرا دورہ گجرات کا ہوا، مولانا نے احمد آباد میں خطاب کیا، مولانا کی تقریر پر پنڈت سندرلال نے سخت تنقید اور احتجاج کیا، مفتی صاحب سے ضبط نہ ہوسکا، انہوں نے فرمایا: ’’پنڈت جی! مولانا نے آخر کیا بے جا بات کہی، آپ اتنے گرم کیوں ہیں ‘‘؟ یہ مفتی صاحب کی دینی حمیت اور اخلاقی جرأت کی دلیل تھی۔
ڈاکٹر سید محمود کے استعفا کے بعد مشاورت کی صدارت کے لئے باتفاق رائے مفتی صاحب ہی کا انتخاب ہوا، اور مفتی صاحب نے اپنی ذہانت اور ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے مشاورت میں جان ڈالنے کی کوشش کی، مگر حالات اتنے ابتر ہوچکے تھے کہ اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی مفتی صاحب کو نہ مل سکی۔