نفس، رسم وآئین، کہن سے انحراف، بے لوثی وبے غرضی اور شرافت سے بے حد متأثر تھے، یوں تو ان کا پورا کلام مولانا کو پسند تھا؛ لیکن ان کی چار غزلیں مولانا کو بے حد پسند تھیں ، اور وہ انہیں باربار سنتے تھے۔ ایک تو وہ غزل جس میں جگر صاحب نے کہا ہے:
چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں
کہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئے
دوسری وہ غزل جس کا ایک شعر یہ ہے:
جب تک کہ غم انسان سے جگر انسان کا دل معمور نہیں
جنت ہی سہی دنیا لیکن جنت سے جہنم دور نہیں
تیسری غزل اس طرح شروع ہوتی ہے:
کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن
لاکھ بلائیں ایک نشیمن
چوتھی غزل کے دو شعر بھی دیکھئے:
وہ سبزہ ننگ چمن ہے جو لہلہا نہ سکے
وہ گل ہے زخم بہاراں جو مسکرا نہ سکے
گھٹے تو بس اِک مشت خاک ہے ورنہ
بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے
مولانا کے ادبی اور شعری پاکیزہ ولطیف مذاق کا اندازہ ان شعروں کے انتخاب سے ہوسکتا ہے۔ جگر صاحب مولانا سے بڑے احترام کا معاملہ کرتے تھے، بارہا ندوہ کے لئے رقم پیش کی، ایک دو بار بڑے اصرار سے مولانا کو بھی ہدیہ پیش کیا، انداز یہ ہوتا تھا کہ اگر ذرا بھی پس وپیش کی تو دل شکنی کا خطرہ ہوتا اور قبول کرلی تو گیا بہت بڑا احسان کردیا، یہ ان کے دل کے ایمان اور اہل ایمان سے ان کے بے پایاں تعلق کی دلیل تھی۔