میں شائع ہوا، اور اتنا مقبول ہوا کہ اس کا عربی ترجمہ بھی قاہرہ سے طبع ہوا۔ مولانا لکھتے ہیں کہ:
میرا خیال ہے کہ وہ جتنی مرتبہ بھی چھپے گأ اور اس سے کسی بندۂ خدا کو فائدہ پہنچے گا اور اس کو دعا کی توفیق ہوگی اس میں ماہر صاحب کا ضرور حصہ ہوگا‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۲۰۴ مختصراً)
۱۹۵۶ء میں مولانا دمشق کے ایک سفر سے واپسی میں کراچی میں ٹھہرے، تو ماہر صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی، دیر تک نشست رہی، اس کے بعد بمبئی میں ایک جلسہ میں ماہر صاحب سے اچانک ملاقات ہوگئی، انہوں نے اپنا کلام سنایا ان کی مشہور نعت جس کا یہ شعر بہت مؤثر ہے:
اے نام محمد! صل علیٰ ماہر کے لئے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں میں تبسم در آیا آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے
مولانا کو بہت پسند تھی۔
ماہر صاحب فاران مولانا کے پاس مستقل بھیجا کرتے تھے، مولانا کو ان کے تبصروں اور تنقیدوں سے بڑی دلچسپی تھی، خود مولانا کی بعض عربی کتابوں کے اردو ترجموں پر انہوں نے ناقدانہ تبصرے کئے، جن سے مولانا نے فائدہ اٹھایا، نقوشِ اقبال کو ماہر صاحب نے بے حد پسند کیا اور بہت مؤثر اور اچھا تبصرہ کیا۔ ۱۹۶۹ء میں لندن میں مولانا کی ملاقات ماہر صاحب سے ہوگئی، دیر تک علمی وادبی مجلس رہی، دورانِ مجلس ماہر صاحب نے بعض اردو محاورات کے بارے میں مولانا کی رائے معلوم کی جو اس بات کی دلیل تھی کہ وہ مولانا کے ادبی پایہ بلند کے معترف ہیں ، مولانا اپنی تمام تصنیفات انہیں ضرور بھیجتے تھے، مولانا کے بقول ماہر صاحب ان گنے چنے ادباء میں سے تھے جو پوری کتاب پڑھ کر ناقدانہ ومبصرانہ تبصرہ کرتے ہیں اور حق ادا کرتے ہیں ، پرانے چراغ کے پہلے حصہ کو پڑھ کر ماہر صاحب نے مولانا کو لکھا کہ:
’’پرانے چراغ نے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشا، خاصا حصہ پڑھ ڈالا، آپ کی