ہے‘‘۔ (پرانے چراغ۲؍۱۷۹ -۱۸۰ مختصراً)
اسی موقع پر مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر ہوئے حملوں کے احتجاج میں لکھنؤ سے سب سے پہلی آواز اٹھی، جس میں مولانا اور ان کے احباب کا اہم رول تھا، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رشید صاحب نے اپنے اسی مکتوب کے آخر میں تحریر فرمایا:
’’مسلم یونیورسٹی جن منازل سے گذرتی ہوئی جہاں پہنچی ہے، اس سے کتنے نئے اور پرانے غم تازہ ہوگئے، ایسا معلوم ہونے لگا ہے جیسے مسلمانوں کے لئے تمام دنیا میں کہیں امان ہے نہ انصاف، اللہ تعالیٰ ان غریب اور غیور مسلمانوں کو اس آزمائش سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے، جن کے باریمیں بشارت دی گئی ہے کہ اسلام کو انہیں سے سہارا تسکین اور طاقت ملے گی، خدا آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ افتخار بخشے، آپ صاحبان کے بارے میں میرا یہی خیال ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۱۸۰)
رشید صاحب کو مولانا کی تمام تصانیف میں مولانا کا سفر نامہ ’’دریائے کابل سے دریائے یرموک تک‘‘ سب سے زیادہ پسند آیا، انہوں نے اس کے مطالعہ کا اوروں کو بھی مشورہ دیا اور اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ:
’’دعا ہے کہ آپ اس پایہ کی تصنیف سے ہمارے ولولوں کو آنے والے اچھے دنوں کی بشارت سے تازہ کار رکھیں گے اور تقویت پہنچاتے رہیں گے، آپ کی تصانیف میں انشاء پردازی کا جو حسن، جامعیت اور موافق احوال ہونے کی صفت پائی جاتی ہے اس کا اعتراف مجھ سے بہتر لوگ کرچکے ہیں ‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۱۸۲ مختصراً)
یہ کتاب انہیں اتنی پسند آئی کہ چند ہی دنوں بعد دوسرے مکتوب میں لکھا:
’’آپ کی یہ تصنیف اس طرح کی تصانیف سے جو دوسروں نے اب تک پیش کی ہیں ، نمایاں طور پر ممتاز ہے، اسلوب اور اظہار مطالب کے اعتبار سے جتنی سنجیدہ اور مؤثر ہے، اتنا ہی دلکش بھی ہے، جن موضوع ومسائل پر آپ نے بحث کی ہے اس کی سطح اور انداز بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے قدیم کو جدید میں جس خوبصورتی سے ڈھالا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے، کتاب کے تعارف میں جو باتیں ٹائٹل پیج پر درج ہیں ، ان سے کچھ زیادہ ہی