ہوا کہ یہ پچھلی سے اونچی ہے، تیسری پڑھی تو محسوس ہوا کہ یہ دونوں سے بہتر ہے، اس طرح خوب سے خوب تر تک سفر کرتا چلا گیا، آپ کے لئے ذہن میں تحسین کا جو دفتر کھلا وہ فی الحال قابو میں نہیں آتا کہ لکھ کر آپ تک پہنچاؤں ، کتنے محدود صفحات میں آپ نے بصائر ومعارف کا کیسا گراں بہا ذخیرہ فراہم کردیا ہے، پھر آپ کا جامع فکر انگیز اور دل نشین لب ولہجہ وپیرایۂ بیان، اس مختصر مطالعہ سے کتنی اور کیسی اچھی اور فکر انگیز باتیں ذہن میں پیدا ہوتی ہیں ، ارو زندگی وذمہ داری کے کیسے کیسے نئے افق سامنے آتے ہیں ‘‘۔ (پرانے چراغ۲؍۱۷۴ -۱۷۵مختصراً)
اس کے بعد علی گڈھ کے سفر میں ہربار مولانا کی ایک طویل مجلس رشید صاحب کے ساتھ ہوا کرتی تھی، جس میں مولانا رشید صاحب کے دردمند دل اور حساس وبیدار ضمیر سے بے حد متأثر ہوتے۔
مسلم مجلس مشاورت کے ایک مؤقر وفد کے ساتھ مولانا نے ۱۹۶۶ء میں ریاست میسور کا ایک کامیاب دورہ کیا تھا، اس کی روداد ’’بارہ دن ریاست میسور میں ‘‘ کے عنوان سے ’’ندائے ملت‘‘ میں طبع ہوئی، رشید صاحب نے اسے پڑھا اور بہت پسند کیا، اس موقع پر اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
’’کچھ دن ہوئے ’’ندائے ملت‘‘ میں آپ کے دورۂ دکن کی روداد نظرسے گذری تھی، جو آپ اور آپ کے رفقاء نے مجلس مشاورت کو متعارف کرانے کے لئے کیا تھا، وفد کا خیر مقدم جس خلوص اور گرم جوشی سے کیا گیا وہ غیر متوقع نہ تھا؛ لیکن مجھے تو مصحفی کا وہ شعر یاد آرہا ہے :
ع: کہیں تو قافلۂ نو بہار ٹھہرے گا
جو آپ نے اس سلسلہ میں لکھا تھا، جس مہم اور مقصد کے پیش نظر یہ شعر آپ کے ذہن میں آیا اس سے معلوم نہیں کتنا اضافہ اس لطف وعقیدت میں ہوا جو آپ کی طرف سے میرے دل میں ہے۔ دین، مذہب، سیاست اور معلوم نہیں کتنے اور مسائل مہمہ سے دوچار رہ کر زادِ سفر کی ایسی شگوفہ زائی کتنی دل آویز معلوم ہوئی، شعر وادب کی اس شگفتگی کو تو میں آدمی کی شرافت، شجاعت اور شائستگی پر محمول کرتا ہوں ، اچھا اور بڑا آدمی بجائے خود اچھا شعر ہوتا