دریاآبادی کے ’’سچ‘‘ کا بھی مولانا پابندی سے مطالعہ کرتے رہے اور فائدہ اٹھاتے رہے۔
ندوۃ العلماء میں تفسیر قرآن کی تدریس کے دوران مولانا کو جو اشکالات یا حل طلب مسائل پیش آئے، ان کے حل کے لئے وہ بارہا مولانا دریاآبادی کی خدمت میں گئے، مراسلت کا سلسلہ جاری رکھا اور ہر موقع پر مولانا دریاآبادی کی صلاحیت اورمحبت، انضباطِ کار وتنظیم اوقات اور حمیت اسلامی سے بے حد متأثر ہوئے۔ ’’ماذا خسر العالم‘‘ کی ترتیب کے دوران انگریزی مصادر ومراجع کی مشکل عبارتوں کے فہم میں بھی مولانا نے اُن سے مدد لی، مولانا دریاآبادی کا یہ معمول ہوگیا تھا کہ جب بھی انہیں مولانا کے کام کی کوئی چیز ملتی، اسے مولانا کے پاس ضرور بھجواتے، مولانا کے نام اُن کے مراسلات کی تعداد ۵۳؍ہے، اور ان مراسلات میں معلومات کا ایک خزانہ ہے۔
جنوری ۱۹۵۸ء میں پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی اسلامک کلوکیم منعقد ہوا، جس میں مولانا علی میاں ؒ نہ جاسکے، مولانا دریاآبادی شریک ہوئے، اس موقع پر لاہور سے انہوں نے ایک خط مولانا کو لکھا:
’’کیا کہوں کہ آپ کے نہ آنے کا یہاں پہنچ کر اور یہاں کا رنگ دیکھ کر کس درجہ افسوس مجھے ہورہا ہے، بہترین زمین یہاں آپ کے لئے تیار تھی، وہاں کا کام دوسرے حضرات کرسکتے تھے، مگر یہاں کے لئے بجز آپ کے اور کوئی ہندوستانی میری نظر میں نہیں ‘‘۔
(پرانے چراغ۲؍۱۵۹-۱۶۰ مختصراً)
مولانا دریاآبادی دوبار رائے بریلی میں مولانا کے دولت کدہ پر ان کا کتب خانہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے، دارالمصنفین کے جلسوں میں شرکت کے لئے اعظم گڈھ کے اسفار میں اکثر مولانا کی رفاقت رہتی تھی، مولانا دریاآبادی نے اپنی کتاب ’’معاصرین‘‘ میں مولانا کا جس انداز میں تعارف کرایا ہے، وہ اپنی انفرادیت، برجستگی، جامعیت اور ادبیت کے لحاظ سے شاہکار ہے، جس میں مولانا دریاآبادی نے مولانا کے لئے اپنی نماز