منظم اور مؤثر اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لئے پرکشش اور اطمینان بخش بنانے کے لئے طریقۂ کار اور انداز واسلوب میں کچھ تبدیلیوں اور اضافوں کی تجویز پیش کی؛ لیکن ارکان وذمہ داران کے ذہنوں نے یہ تجویز قبول نہ کی، ایسا شاید رئیس التبلیغ کی وفات کے بعد دعوت کے اس ابتدائی مرحلہ میں احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی وجہ سے ہوا۔
یہ تجویز مولانا نے کئی بار پیش کی، مگر اسے قبول نہ کیا جاسکا، دوسری طرف جماعت چوں کہ مخلصانہ اساسوں پر تعمیر ہوئی تھی اور امیر جماعت کے مستقل انہماک کی برکت تھی کہ اس کام کا فائدہ اور دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا تھا، عملی زندگیوں میں اصلاح وتبدیلی کے اثرات بے حد نمایاں تھے، ان سب کے پیش نظر مولانا نے اپنی تجویز پھر پیش نہ کی۔
لیکن چوں کہ مولانا کا ذہن وخیال تبدیلیاں چاہتا تھا اور دعوت کے اس کام کی آفاقیت اور عالمیت کو مزید بڑھانا چاہتا تھا، اور اس داعیہ وخیال پر کنٹرول خارج از استطاعت تھا، اس لئے مولانا نے مرکز سے تعلق اور دعوت کی مصروفیات کو باقی وجاری رکھنے؛ لیکن اپنے دائرۂ کار اور دائرۂ اختیار میں اس کو بیش از بیش سودمند اور مفید وبار آور بنانے اور حالات وماحول کے تقاضوں کی رعایت ولحاظ رکھنے اور دعوت وتبلیغ اور افہام وتفہیم میں اپنا اسلوب اور زبان استعمال کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ (یہ تفصیلات کاروانِ زندگی اول میں موجود ہیں ، دیکھئے: بابِ یازدہم)
اور اسی کے مطابق عمل ہوتا رہا، نہ تو مولانا کے دل میں ارکانِ جماعت کی طرف سے کوئی میل آیا اور نہ ہی ارکانِ جماعت کے دلوں میں مولانا سے کوئی بعد اور بیزاری پیدا ہوئی، ملاقاتوں ، آمد ورفت، مراسلات اور دعوتی سرگرمیوں کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں شرکت کا سلسلہ جاری رہا، فتنہ پرور افراد نے جب بھی جماعت کے خلاف آواز اٹھائی اور الزامات لگائے، مولانا کو برداشت نہ ہوا کہ آخر جماعت ان کی بھی محنتوں اور کاوشوں کا صلہ اور ثمرہ تھی، مولانا نے اس کا مقابلہ کیا اور جوابات دئے، اور آخر تک جماعت تبلیغ کو اصلاح وتبلیغ کی تمام معاصر کوششوں میں سب سے زیادہ کامیاب اور نتیجہ خیز کوشش سمجھتے اور ظاہر