سنگ گراں اس کی راہ میں حائل نہ ہوپایا، اسے وہ قبولیت محبوبیت اور ہر دل عزیزی نصیب ہوئی کہ مخالفین بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ اس کی مقبولیت عند اللہ کا مظہر ہے۔
حضرت مولانا علی میاں ؒ اب بھی اسی انداز میں اس خدمت میں مصروف رہے، ’’حضرت مولانا محمد الیاسؒ اور ان کی دینی دعوت‘‘ نامی کتاب بھی لکھی، جو بہت مؤثر ومقبول ہوئی، حضرت مولانا نے حجازِ مقدس اور عالم عرب تک اس کام کو پہنچایا اور اپنا قیمتی وقت اس قیمتی کام میں صرف کرتے رہے، اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی انداز میں آخر تک چلتا رہا۔
یہاں یہ حقیقت واضح کرنی بھی نامناسب نہ ہوگی کہ مولانا ایک وسیع اور متنوع ثقافت کے حامل تھے، ان کا ایک وسیع وعمیق فکری وعلمی پس منظر (Back Ground) تھا ہر دور میں مولانا منصوصات وغیر منصوصات اور مقاصد ووسائل میں فرق کرتے رہے، اور ان کاخوب سے خوب تر کی تلاش اور نافع سے انفع کی جستجو کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا، وہ حالات کے تقاضوں کو جانتے تھے، نبض شناس تھے، ان کا یہ خیال تھا کہ ہر تحریک ودعوت اور ادارہ میں جو خدمتِ دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے مقاصد واغراض پر قائم ہوا، نمو وارتقاء اور حرارت ودوام کے لئے زندگی اور اس کے مسائل سے باخبری اور جائز اور لازمی حد تک اس کی تکمیل اور زندگی سے تطبیق کی کوشش وسعی بہت ضروری ہے، اس کے بغیر تحریکیں اور ادارے نمو اور زندگی کی صلاحیتوں سے محروم اور جامد ہوجاتے ہیں ، اور ان کی افادیت آفاقی نہیں رہ جاتی محدود ہوتی اور سکڑتی چلی جاتی ہے، یہ خیالات جو مولانا کے خاص مطالعہ اور ذہنی ساخت کا نتیجہ تھے، ہر دور میں مولانا کے ساتھ رہے، اور:
اسی کشمکش میں گذریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی کبھی پیچ و تابِ رازی
یہ خیال رئیس التبلیغ کی وفات کے بعد بڑی شدت سے مولانا کے دل میں ابھرا، مولانا نے امیر جماعت مولانا محمد یوسف صاحب اور دیگر ارکان کے سامنے اس کام کو زیادہ