کرتے رہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں یہ تبلیغی کام بڑے زور وشور سے جاری رہا، مولانا کے حادثۂ ارتحال سے چند ماہ قبل جون ۱۹۹۹ء میں ندوۃ العلماء میں سابقہ متعدد تبلیغی اجتماعات کی طرح ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا، جس میں مولانا نے اپنی سخت علالت وضعف کے باوجود بصیرت افروز پرزور خطاب فرمایا اور جماعت تبلیغ کے اسٹیج سے آخری بار یہ انقلابی پیغام دیا:
’’ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کی زندگیوں میں خود انقلاب آئے، اور وہ انقلاب لازمی اور انفرادی نہ ہو؛ بلکہ متعدی اور اجتماعی بھی ہو، عقائد کے اعتبار سے بھی، اخلاق کے اعتبار سے بھی، معاملات کے اعتبار سے بھی، آپ کی زندگی دوسروں کے لئے مشعل راہ بنے اور دعوت اسلام کا کام دے، اور آپ میں ایک مقناطیسی طاقت پیدا ہو، جو افراد کو کبھی کھینچے، معاشرہ کو بھی، ملک کو بھی، اور زمانہ کو بھی۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۷؍۲۶۳-۲۶۴ مختصراً)
اسلامی اور اصلاحی انقلاب کی یہی جہد مسلسل تڑپ اور لگن مولانا کی پوری زندگی کا ایک تابناک پہلو ہے، جس میں کہیں بھی توقف وتردد نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی غفلت وکسل مندی آڑے آئی۔ گویا:
ہم نے اپنے آشیانے کے لئے
جو چبھے دل میں وہی تنکے لئے
rvr