مختصر نوٹ لکھا، پھر مولانا نے اپنی دیانت کاتقاضا سمجھتے ہوئے اگست ۱۹۷۸ء میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا، جو ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا اور اس کا عربی ترجمہ ’’التفسیر السیاسی للاسلام‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا، مولانا نے اس کتاب میں یہ التزام کیا ہے کہ مولانا مودودی کی خدمات اور تصنیفی انفرادیت کے اعتراف کے ساتھ کہیں کوئی طنزیہ جملہ یا تیز لفظ نہ آنے پائے، اس میں مولانا پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں ، مولانا نے اس کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ:
’’پیش نظر کتاب ایک علمی واصولی تبصرہ وجائزہ ہے، وہ نہ مناظرہ کے انداز میں لکھی گئی ہے، نہ فقہ وفتویٰ کی زبان میں ، وہ ایک اندیشہ کااظہار ہے اور ’’الدین النصیحۃ‘‘ (دین خیرخواہی کا نام ہے) کے حکم پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش، اس کی کوئی سیاسی غرض ہے نہ کوئی جماعتی مقصد۔ اس ناخوش گوار کام کومحض عند اللہ مسئولیت وشہادت حق کے خیال سے انجام دیا گیا ہے، جو لوگ دین کی سنجیدہ اور مخلصانہ خدمت کرنا چاہتے ہیں ، ان میں طلب حق کی سچی جستجو اور اپنی دینی ترقی وتکمیل کا جذبۂ صادق پایا جاتا ہے، انہوں نے ہمیشہ صحت مند اور تعمیری تنقید اور مخلصانہ مشورہ کی قدر کی ہے، اور فکر وسعی اسلامی کی طویل تاریخ میں دین کے صحیح فہم وتفہیم اور اسلام کی صیانت وحفاظت میں اس سے ہمیشہ مدد لی گئی ہے‘‘۔
(عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح ۶، طبع دوم)
مولانا نے یہ کتاب طبع ہونے کے بعد مولانا مودودی کی خدمت میں بھیجی، تو انہوں نے اپنے جوابی مکتوب میں لکھا:
’’میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ میری جس چیز کو آپ نے خدشات کا موجب سمجھا اس پر تنقید فرمائی، مزید میری جن جن چیزوں کو آپ دین اور اہل دین کے لئے مضرت رساں یا موجب خطرہ سمجھتے ہوں ان پر بھی بلاتکلف تنقید فرمائیں ، میں نے کبھی اپنے کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا، نہ میں اس پر برا مانتا ہوں ؛ البتہ یہ ضروری نہیں کہ میں ہر تنقید کو برحق مان لوں اور ناقدین کے بیان کردہ خدشات اور اندیشوں کو صحیح تسلیم کرلوں ‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۳۱۷)