دیا ہے، جو خود اعتمادی سے بھرپور اور مرعوبیت وسطحیت سے دور ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۳۰۰)
نئی نسل میں اسلام پر اعتماد اور اسلام کی سربلندی، اسلامی حکومت کے قیام وضرورت کا جذبہ جو مولانا مودودیؒ نے پیدا کیا، وہ ان کی ایسی خدمت ہے جو کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی؛ لیکن دین کی وہ جدید تفہیم وتشریح جو مولانا مودودی کی کتابوں ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، تفہیمات، رسائل ومسائل‘‘ وغیرہ میں پائی جاتی ہے، اور جس میں سیاسی رنگ نمایاں اور تزکیۂ باطن کاعنصر دبا ہوا ہے، اس سے مولانا علی میاں ؒ کبھی متفق نہیں رہے، اسی طرح بعض صحابۂ کرام کے سلسلہ میں جو سوء ادب مولانا مودودی کے قلم سے سرزد ہوگیا ہے وہ بھی مولانا علی میاں ؒ کو کبھی پسند نہیں رہا، اور ان کی بے اطمینانی بڑھتی گئی، مولانا علی میاں ؒ نے جماعت اسلامی سے اپنی حلیحدگی وبے اطمینانی کے اسباب کے اظہار میں ہمیشہ احتیاط کا دامن تھامے رکھا اور ایسی باتیں کبھی نہیں کہیں جن سے غلط مقصد حاصل کیا جاسکے۔ مولانا نے لکھا ہے کہ:
’’بے اطمینانی کے اسباب ریاضی واقلیدس کے قواعد کی طرح بندھے ٹکے لفظوں اور ضابطوں کی شکل میں بیان نہیں کئے جاسکتے، اس کے اسباب مختلف النوع ہوسکتے ہیں ، ان کا تعلق تعلیم وتربیت، ماحول کے اختلاف، وہ شخصیتیں جن سے آڈمی متأثر ہوتا ہے، ان کی رنگا رنگی، ذاتی تجربات، موروثی وخاندانی اثرات، ذہنی ارتقاء اور مطالعہ کے نتائج سے بھی ہوسکتا ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۳۱۵)
اس طرح کے سوالات کے جوابات میں مولانا اپنی تصانیف ’’تاریخ دعوت وعزیمت، تزکیہ واحسان، ارکانِ اربعہ، منصب نبوت‘‘ وغیرہ کے مطالعہ کی طرف رہنمائی کرتے تھے؛ لیکن پھر جب مولانا علی میاں ؒ نے دین کی اس جدید تفہیم (جو مولانا مودودی کے علاوہ سید قطب شہید نے بھی اپنائی ہے) کا اثر برصغیر اور بلادِ عربیہ کے نوجوانوں کی تحریر وتقریر اور فکر وخیال میں نمایاں دیکھا اور فکر وعمل اور سعی وجہد کی پٹری بدلتی دیکھی، تو سب سے پہلے اپنی عربی کتاب ’’النبوۃ والأنبیاء فی ضوء القراٰن‘‘ کے تیسرے ایڈیشن (اور اس کے اردو ترجمہ ’’منصب نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین‘‘ کے دوسرے ایڈیشن) میں اس پر ایک