مولانا مودودیؒ کا یہ رد عمل ہندوستان میں جماعت کے متفق حلقوں کے رد عمل سے بے حد مختلف رہا، آخری عمر میں مولانا مودودیؒ کو مزید احساس ہوچلا تھا کہ خلافتِ اسلامیہ کے قیام کے لئے معاشرے کے افراد کی دینی اخلاقی تربیت اور سیرت سازی وتعمیرِ کردار پر پہلے سے اور زیادہ زور دینا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے روحانی وباطنی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے (خواہ اس کا کچھ بھی نام رکھا جائے اور تصوف کے مروجہ طریقوں سے کتنا ہی احتراز کیا جائے) اور اگر ان کو مہلت ملتی تو اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کے قیام پر بھی اور زیادہ زور دیتے اور اس کے لئے اپنی توجہ کو مرکوز کردیتے۔
مولانا علی میاں ؒ کی یہ کتاب (عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح) اپنے اسلوبِ نگارش کے لحاظ سے بہت مثبت اور معیاری ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکمت ومصلحت، اعتدال وتوازن، ایجابی ومثبت تعمیری انداز، افہام وتفہیم کی مخلصانہ کوشش، تہذیب وشائستگی کے التزام، طعن وتشنیع اور سخت جملوں سے احتراز، ذاتی تعصب وعناد سے بعد اور محض حق وصدق کے اظہار واقرار کے جذبات کی پوری رعایت کے ساتھ مولانا علی میاں ؒ نے جو طریقہ اپنایا وہی طریقہ اگر اس حلقے اور طبقے نے بھی اپناای ہوتا جس نے اپنی تنقیدوں میں لہجہ کی شدت اور طعن وتشنیع سے کام لیا (اگرچہ اس کے جواب الجواب میں جماعت کے بعض منتسبین نے بھی کچھ کم شدت پسندانہ رویہ نہیں اپنایا، جن میں مرحوم مدیر ’’تجلی‘‘ مولانا عامر عثمانی وغیرہ سرفہرست تھے) اور اگر مخلصانہ افہام واصلاح کی سعی پیہم کی جاتی، تو شاید حالات ایسے نہ رہتے اور بہت کچھ تبدیلی ہوتی؛ لیکن تدبیر کی بے بسی اور تقدیر کی کارفرمائی مسلمہ حقیقت ہے، اسے کیسے ٹالا جاسکتا ہے؟ وکان امر اللّٰہ مفعولاً۔
نوٹ: اس مضمون کی ترتیب میں پرانے چراغ دوم اور کاروانِ زندگی اول سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
rvr