بھی کیا، پھر ۱۹۶۲ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کا قیام عمل میں آیا، تو ان اداروں کے سالانہ جلسوں اور میٹنگوں کے موقع پر بار بار ملاقات کا سلسلہ جاری رہا، آخری ملاقات جولائی ۱۹۷۸ء میں لاہور میں ہوئی، مولانا مودودیؒ نے بڑی محبت سے ملاقات کی، گفتگو میں جنرل ضیاء الحق کا ذکر آیا تو مولانا مودودیؒ نے کہا کہ انہیں کسی طرح ناکام نہیں ہونے دینا چاہئے، مولانا نے ’’تحریک پیام انسانیت‘‘ کا تعارف کرایا تو مولانا مودودیؒ نے کہا کہ اصلاحِ معاشرہ کے لئے اس طرح کی تحریکوں کی پاکستان میں بھی ضرورت ہے۔ (کاروانِ زندگی ۲؍۲۶۹)
مولانا علی میاں ؒ کے بقول جماعت اسلامی اور مولانا مودودی سے ان کے ربط وتعلق کا اصل سبب مولانا مودودی کے وہ تنقیدی اور مؤثر مقالات ومضامین تھے، جن میں مغربی تہذیب کے فلسفہ زندگی اور مادہ پرستانہ موقف کی شدت سے مخالفت کی گئی تھی (ان میں سے اکثر مضامین تنقیحات میں شامل ہیں ) اس مسئلہ میں مولانا علی میاں ؒ مولانا مودودیؒ کے پورے مؤید، معاون اور مداح رہے، اور مولانا مودودیؒ کی ذہانت، ذہن کی صفائی ورسائی اور جدید اسلوب میں تحریر وتفہیم کی امتیازی قوت وقدرت کو ان کا اصل جوہر سمجھتے رہے۔ مولانا نے لکھا ہے:
’’واقعہ یہ ہے کہ اس جدید تعلیم یافتہ نسل پر ذہنی وعلمی طور پر مولانا مودودی نے گہرا اور نہایت وسیع اثر ڈالا ہے، انہوں نے اس نسل کی صدہا بے چین روحوں ، ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسلام سے قریب کرنے؛ بلکہ اس کا گرویدہ بنانے اور اس کے دل ودماغ میں اسلام کا اعتماد ووقار بحال کرنے کی قابل قدر خدمت انجام دی ہے، جہاں تک اس تعلیم یافتہ اور ذہین طبقہ کا تعلق ہے اس اثر انگیزی میں (اس ربع یا نصف صدی میں ) مشکل سے کوئی مسلمان مصنف ومفکر ان کا مقابل وہمسر ملے گا، مولانا مودودیؒ کے بعض خیالات وتحقیقات سے کسی کو کتنا ہی اختلاف ہو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی تحریروں اور مضامین مغرب کی تہذیب اور اس کے فلسفۂ حیات کے گہرے مطالعہ اور ذاتی واقفیت پر مبنی ہیں ، انہوں نے ایسے مبصرانہ اور جرأت مندانہ انداز میں اس کی تنقید اور اس کے علمی تحلیل وتجزیہ کا فرض انجام