سبب بنے، اور یہ احساس ہوا کہ کام عملی حدود تک نہیں پہنچ پارہا ہے، چناں چہ جماعت سے تعلق میں فرق آنا شروع ہوا، دوسری طرف ۱۹۴۰ء کے بعد ہی سے مولانا کا ربط شیخ التبلیغ مولانا محمد الیاس صاحب اور ان کی تحریک دعوت سے بڑھا، یہ رجحان بڑھتا گیا اور مولانا کے دل کو وہاں تسلی ملی، اس ذہنی کشمکش کی اطلاع مولانا نے خود ہی مولانا مودودیؒ کو دی، جس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے انہیں یکسو ہوجانے کا مشورہ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۴۳ء میں مولانا علی میاں ؒ جماعت سے علیحدہ ہوگئے اور جماعت تبلیغ سے منسلک ہوکر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے، علیحدگی کا کوئی اعلان نہیں کیا اور پھر بھی مولانا مودودیؒ اور جماعت کے افراد خصوصاً اپنے رفیق مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ سے مولانا علی میاں ؒ کے روابط آخر تک بڑے اچھے رہے، اور ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ مارچ ۱۹۴۴ء میں مولانا علی میاں ؒ پٹھان کوٹ میں دارالاسلام میں مولانا مودودیؒ کے مہمان بھی رہے، مولانا مودودیؒ نے غایت محبت وتعلق کا معاملہ کیا، اسٹیشن پر آکر رخصت کیا، مولانا کے رسالہ ’’دعوتان متنافستان‘‘ کو بے حد پسند کیا اور سرارہا۔
یہ صرف رائے اور نظریہ کا اختلاف تھا جو کبھی نفرت وعداوت اور ذاتی بغض وعناد کی سرحد سے نہیں مل سکا، مولانا مودودیؒ کی مخالفت میں مولانا علی میاں ؒ کبھی بھی تکفیر وتفسیق اور تضلیل کی ان حدوں کو نہیں پہنچ سکے، جہاں تک مولانا مودودیؒ کے شدید ناقدین پہنچے، اس کی وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں مولانا علی میاں ؒ کی خاندانی نجابت وشرافت، اعتدال، حق پرستی اور ذاتی وشخصی تعصب وعناد سے بعد ونفرت ہی کو دخل رہا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد ۱۹۵۴ء میں مولانا علی میاں ؒ نے مولانا مودودیؒ سے لاہور سینٹرل جیل میں ملاقات کی، پھر جون ۱۹۵۶ء میں دمشق کی مؤتمر اسلامی کانفرنس میں ملاقات رہی، جس میں مولانا مودودیؒ کے اصرار پر ان کی تقریر کا دوبار مولانا علی میاں ؒ نے عربی میں ترجمہ