مولانا مودودیؒ ہی کی کوششوں اور تحریروں کا رہین منت ہے، اس کا انتساب بدستور انہیں کی طرف رہے گا، اس رائے کے مطابق فیصلہ ہوا، اور مولانا مودودیؒ ہی امیر جماعت رہے۔
اکتوبر ۱۹۴۲ء میں جماعت کی مجلس انتظامیہ کا دوسرا اجلاس دہلی میں ہوا، مولانا علی میاں ؒ اس میں شریک رہے، اس کے بعد مولانا مودودیؒ کے ہمراہ علی گڈھ میں ایک دو دن قیام رہا اور یونیورسٹی میں مولانا مودودیؒ کی مقبولیت اور محبوبیت کا اندازہ ہوا، اس دوران مولانا مودودیؒ جماعت کا ایک عربی آرگن نکالنا چاہتے تھے، مولانا علی میاں ؒ نے یہ رائے دی کہ پرچہ کے اجراء سے پہلے کا کام یہ ہے کہ عربی میں مضامین کا ترجمہ کرکے انہیں عالم عربی کے مؤقر جرائد میں طبع کرالیا جائے، مولانا مودودیؒ نے یہ ذمہ داری مولانا علی میاں ؒ ہی کو سپرد کرنا چاہی؛ لیکن انہوں نے مولانا مسعود عالم ندویؒ کو اس کام کے لئے موزوں بتایا، چناں چہ انہیں کا انتخاب ہوا، اور پہلے جالندھر میں پھر مغربی پنجاب میں ’’دارالعروبۃ‘‘ قائم ہوا اور یہ کام شروع کردیا گیا، مولانا مسعود عالم ندویؒ نے جماعت کے لٹریچر کو عربی میں منتقل کرکے جماعت کو عالم عربی میں متعارف کرانے کی ناقابل فراموش خدمت انجام دی، مولانا علی میاں ؒ تقریباً تین سال تک لکھنؤ کی جماعت کے امیر رہے، اس دوران انہیں تین چیزوں کا شدت سے احساس ہوا، ایک تو یہ کہ مولانا مودودیؒ کے سلسلہ میں جماعت کے معتقدین ومنتسبین بڑے غلو ومبالغہ سے کام لے رہے ہیں ، جس کا نتیجہ دوسرے داعیوں اور مفکرین سے بیزاری اور بیگانگی کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے، جو بہت ہی خطرناک ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ تنقید میں بہت بے باک ہوگئے ہیں اور علماء کرام اور دیگر دینی حلقوں پر طعن وتشنیع کا مزاج رکھتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ ان میں کوئی دینی تڑپ، اصلاح کا نمایاں جذبہ اور تعلق مع اللہ میں اضافہ کی کوشش سنجیدگی سے نہیں ہورہی ہے، یہ وہ اسباب تھے جو مولانا کے لئے مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے متأثر ہونے اور انجذاب کے احساس کے ساتھ افسردگی اور تکلیف کا