بخشی ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۳۰۶)
اس جوابی مکتوب میں مولانا مودودیؒ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’پردہ‘‘ کے عربی ترجمہ کی خواہش ظاہر کی اور یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’ندوہ کے سوا کسی اور مرکز کی طرف نظر نہیں جاتی، براہِ کرم آپ کسی ایسے صاحب کو اس کام پر مامور فرمائیں ، جو جیتی جاگتی زبان میں اسے منتقل کرسکیں ‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۳۰۵)
جنوری ۱۹۴۱ء میں مولانا مودودی لکھنؤ تشریف لائے، ندوۃ العلماء کے مہمان خانہ میں قیام ہوا، لکھنؤ عکے لوگوں میں وہ سب سے زیادہ مانوس مولانا علی میاں ؒ ہی سے تھے، اس موقع پر مولانا علی میاں ؒ کو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کی شگفتگی، اخلاق اور مقصد کی لگن اور تڑپ سے بے حد متأثر ہوئے۔
اس دوران جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آچکا تھا، مولانا علی میاں ؒ اپنے رفیق قدیم مولانا محمد منظور نعمانیؒ کے ساتھ جماعت میں شامل اور مولانا مودودی کے ہم خیال ہوگئے تھے۔ ۱۹۴۲ء مولانا مودودیؒ پھر لکھنؤ آئے اور مولانا علی میاں ؒ کی خواہش پر انہوں نے جمعیۃ الاصلاح طلبہ ندوۃ العلماء کے اجلاس میں اپنا مقالہ ’’نیا تعلیمی نظام‘‘ کے عنوان سے پڑھا اور مولانا ہی کی سفارش پر انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں ’’نوعِ انسانی کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘ کے عنوان سے وقیع مقالہ پیش کیا، لکھنؤ میں مولانا مودودیؒ کا پروانہ وار استقبال ہوا۔
فروری ۱۹۴۲ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کی عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا، مولانا علی میاں ؒ اس میں شریک ہوئے، اس وقت مولانا مودودیؒ کے بعض افکار ونظریات کی مخالف ہندوستان کے مشہور اہل قلم فاضل افراد کررہے تھے، اس لئے یہ تجویز بھی آئی کہ مولانا مودودیؒ فی الحال جماعت کی امارت سے سبک دوش ہوجائیں ، اور مولانا امین احسن اصلاحی کو امیر مقرر کردیا جائے، اس موقع پر مولانا علی میاں ؒ کی تائید مولانا مودودیؒ کے حق میں تھی، مولانا علی میاں ؒ کا یہ خیال تھا کہ اس مصنوعی رد وبدل کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جماعت کا وجود