ہے، حضرت مولانا علی میاں ؒ بھی بلاشبہ انہیں مجددین وداعیان میں ایک ہیں ، دعوت وعزیمت ان کا خصوصی مزاج وطبیعت بن گئی تھی، اس لئے وہ بجاطور پر تاریخ دعوت وعزیمت میں جگہ پانے کے مستحق اور اہل ہیں ۔
مولانا کی دعوت کا بنیادی امتیاز اخلاص اور استغناء ہے، دعوتی سرگرمیوں میں کبھی مولانا کو عجب وکبر اور حرص چھوکر بھی نہیں گذرا، استغناء اور مادی چیزوں سے مولانا کا بعد وزہد ہی ان کی اور ان کی دعوت کی مقبولیت، محبوبیت اور تاثیر کا اصل سبب تھأ، مولانا نے اپنی دعوتی سرگرمیوں ؛ بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسی پیغمبرانہ اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور اپنایا جسے قرآنِ کریم نے باربار دہرایا ہے: {وما اسألکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العٰلمین} (میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے)
واقعہ یہ ہے کہ اخلاص واستغناء کی تفسیر اس سے زیادہ جامع اور مکمل تعبیر میں نہیں کی جاسکتی، اور اسی وصف نے مولانا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندانی وارث ہونے کے ساتھ ہی روحانی وارث وامین بھی بنادیا تھا، جس سے بڑا امتیاز میری نظر میں اس دنیائے آب وگل میں کوئی اور نہیں ہوسکتا:
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
نوٹ: عربی حوالوں میں ترجمہ مضمون نگار کے قلم سے۔
Rvr