مولانا نے ڈاکٹر امبیڈکر سے بڑی سفائی سے فرمایا تھا:
’’داکٹر صاحب! آپ سے مختلف مذاہب کے بڑے بڑے لوگ ملے ہوں گے، اور انہوں نے اونچی اونچی باتیں کہی ہوں گی، میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کو اپنی اور اپنی برادری کی نجات کی فکر ہے اور خلوص کے ساتھ صحیح مذہب کی تلاش ہے، تو میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں ‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۱۵۹)
اب یہ تقدیری بات تھی اور گویا آیت قرآنی: {انک لاتہدی من احببت ولکن اللّٰہ یہدی من یشاء} (اے نبی! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے) کی تفسیر تھی کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے اسلام کے بجائے اپنی پ؍ری قوم کے ساتھ بدھ مت کا انتخاب کرلیا اور اس انتخاب کی غلطی کا احساس انہیں اپنی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔ بہرحال مولانا نے تازندگی اپنا یہ داعیانہ منصب بحال رکھا اور زبان وقلم سے جہاد میں مشغول رہے، ان کی پوری زندگی دعوت الی الاسلام کا دوسرا نام ہے، موت بھی قابل رشک پائی، اور جیساکہ بیان کرنے والوں نے بیان کیا کہ مولانا نے آخری ہچکی سورۂ یس کی آیت: {انما تنذر من اتبع الذکر وخشی الرحمن بالغیب فبشرہ بمغفرۃ واجر کریم} (آپ تو صرف اس شخص کو خبردار کرسکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمن سے ڈرے، اے مغفرت اور اجر کریم کی بشات دے دیجئے) پڑھتے ہوئے لی، جو بجا دور پر آیتِ دعوت انذار ہے۔
مشہور ادیب شیخ علی طنطاوی مرحوم نے مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا:
’’برادرم! ابوالحسن! آپ اپنی جماعت کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم ودائم رہئے، میری رائے میں اس وقت آپ کے سوا کسی اور داعی کا اسلوب اور طریقۂ کار اتنا متوازن اور معتدل نہیں ہے‘‘۔ (مقدمات الشیخ علی الطنطاوی ۱۱۱)
تاریخ دعوت وعزیمت (رجال الفکر والدعوۃ) مولانا کی بلند پایہ اور مشہور ترین تصنیفات میں ایک ہے، جس میں مولانا نے مجددین وداعیان کا بڑی تفصیل سے تذکرہ فرمایا