کہ اس میں اعتدال، سہولت ونرمی اور حسن اخلاق کا جوہر گرانمایہ ملتا ہے اور تشدد وتنگی، افراط وتفریط اور بے اعتدالیوں کا دور دور تک نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔
دعوتِ اسلامی وہ محور ہے جس کے گرد مولانا کی ساری زندگی گھومتی رہی ہے، وہ سفر ہو یا حضر، صحت ہو یا مرض، فراخی ہو یا تنگی، ہر مرحلہ اور ہر موقع پر مولانا نے اپنا داعیانہ کردار باقی رکھا اور زندگی اسی میں گذاردی، انہیں دینی ودعوتی مقاصد وجذبات کے ساتھ مولانا ایک عرصہ تک مولانا مودودیؒ کے ساتھ رہے، بعض اسباب (جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے) کی بنیاد پر ان سے الگ ہوئے اور پھر رئیس التبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا کام ایک مدت تک انجام دیتے رہے اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں تاآخر باقی رہا۔
مولانا کا تعلق اس خانوادۂ نبوت سے تھا جس کی فیض رسانیوں نے عالم کا نقشہ بدلا اور ذہن ودماغ تبدیل کئے تھے، اِسی خانوادہ میں حضرت سید احمد شہیدؒ جیسی شخصیت وجود میں آئی تھی، جس نے شعائر اسلامیہ کو ازسر نو اس ظلمت کدۂ ہند میں زندہ کیا تھا اور روحِ جہاد پھونکی تھی، باطل پرستوں سے دو بدو مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں اپنی جانِ عزیز کی قربانی پیش کی تھی، اسی خاندانِ عالی مقام سے مولانا کا تعلق تھا، ان کی سیرت وکردار کو اسلامی سانچہ میں ڈھالا گیا تھا، دعوتی وفکری ماحول میں ان کی نشوونما ہوئی تھی، مشفق ماں نے ان کے لئے روروکر بارگاہِ الٰہی میں داعی بنانے کی جو دعا کی تھی وہ مقبول ومستجاب ہوئی تھی، تقویٰ وصلاح نے مولانا کی زندگی قابل رشک اور بے مثال بنادی تھی، مولانا کی داعیانہ شخصیت کی تعمیر میں خاندان، ماحول، وسیع ومتنوع ثقافت اور معاصر علماء ومشائخ اور مفکرین واصحابِ کمال سے ربط وتعلق کے اثرات بہت گہرے نظر آتے ہیں ، مولانا اپنے آغاز ہی سے داعی ومصلح تھے، ان کا یہ مزاج وفکر ان کی تالیفات ومضامین اور خود عملی زندگی سے نمایاں ہے، وہ ڈاکٹر امبیڈکر کو دعوتِ اسلام دینے بمبئی تشریف لے گئے تھے، اس وقت مولانا کی عمر کل ۲۱؍سال کی تھی،