معراج کا سفر |
|
برداشت کرتے رہے، مصائب جھیلتے رہے، نبوت کا ساتواں، آٹھواں اور نواں سال… یہ تین سال شِعبِ ابی طالب میں قید ونظر بندی میں گذرے، قریش نے تین سال تک سو شل بائیکاٹ کیا۔ بائیکاٹ کے بڑے کٹھن تین سال گذارنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو نبوت کا دسواں سال شروع ہوگیا، اللہ کی شان!!! شِعبِ ابی طالب کی گھاٹی سے نکلنے کے آٹھ ماہ بعد مُشفق چچا ابوطالب کا انتقال ہوگیا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ظاہری طورپر بہت بڑا سہارا تھے، قریش میں آپ کا وہ اثر ورسوخ تھا جس کے سبب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب پھٹکنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا… وہ سہارایکسر ٹوٹ گیا۔ پھر دوسرا غم کہ چچا ایمان سے بھی محروم گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بڑا فکر تھاکہ چچا ایک دفعہ میرے کانوں میں کلمہ پڑھ لیں، تاکہ قیامت کے دن میں گواہی دے سکوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تو ایک جانی دشمن کے ایمان کے لئے بھی بے قرار تھی …پھر وہ چچا جس نے تقریباً بیالیس سال پورا ساتھ دیا، ہر دکھ درد میں برابر کے شریک رہے، ان کے ایمان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کتنا بے قرار ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی کوشش کی…مگر ابوطالب نے طعنوں کے ڈر سے کلمہ پڑھنے سے انکار کردیا، اور آخری کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا ’’عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ‘‘عبدالمطلب کی ملت پرمررہا ہوں، اللہ کی شان! وہ بڑا بے نیاز ہے۔ حضوصلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا بڑا صدمہ تھا حتی کہ قرآن اترا ------------------------------