معراج کا سفر |
|
قرآن نے چور دروازے بند کردئیے آگے فرمایا بِعَبْدِہِ… جو اپنے بندے کو لے گیا، عبدکہتے ہیں بندے کو، قرآن نے اتنے عظیم الشان سفر کے موقع پر عبدکا لفظ استعمال کیا، بِعَبْدِہِ کہا بِرَسُوْلِہِ… نہیں کہا بِنَبِیِّہِ… نہیں کہا بِحَبِیْبِہِ … نہیں کہا کیوں؟ تاکہ کسی کو دھوکا نہ لگے، کوئی اتنے عظیم الشان سفر کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہ سمجھ بیٹھے، یا خدائی صفات میں شریک نہ کرنے لگے… جیسے نصاریٰ کو دھوکا لگا وہ حضرت عیسیٰ ںکو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے، اور جیسے یہود کو دھوکا لگا وہ معجزہ دیکھ کر حضرت عزیر ں کو اللہ کابیٹا بنا بیٹھے، قرآن کہتا ہے۔ وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُنِابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصَارٰی الْمَسِیْحُ بْنُ اللّٰہِ(۱) یہود کہنے لگے عزیرں اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہنے لگے مسیح عیسیٰں اللہ کے بیٹے ہیں یہ دھوکے پچھلے لوگوں کو لگے۔ ’’بِعَبْدِہِ‘‘ لاکر قرآن نے چور دروازے بند کردئیے اور بتادیا کہ خبردار! ہرگز دھوکہ مت کھانا، ہمارے محبوب کو سفر ہم نے کروایا ہے، ہمارے نبی ہمارے بندے ہی ہیں۔صفت ِعبدیت کے معنی عبدیت تمام صفات میں سب سے اونچی صفت ہے، عبدیت کہتے ہیں سارا ------------------------------ (۱) (سورۃ توبۃ آیت-۳۰)