معراج کا سفر |
|
جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر تم صدیق ہو، (۱) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پوچھنے میں کوئی حرج نہیں تھا، کیونکہ ان کا پوچھنا شک وامتحان کے لئے نہیں تھا، بلکہ اس لئے تھا کہ کفار سن لیں، اور کفار کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اس بات میں اعتماد تھا کہ بیت المقدس کو دیکھے ہوئے ہیں اور یہ اطمینان تھا کہ یہ ظاہری بات میں غلط بات کی تصدیق نہ کریں گے۔ (۲)معراج کا سفر جسمانی تھا ان مشرکین مکہ کے اشکالات، سوالات اور نشانیاں پوچھنا یہ خود اس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب کے قبیل کا یا روحانی نہیں تھا بلکہ جسمانی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جسدِاطہر کے ساتھ تشریف لے گئے تھے۔ اسی لئے تمام صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جسدِ مبارک کے ساتھ بیداری کی حالت میں معراج ہوئی، صرف دوتین صحابہ اور تابعین سے نقل کیا جاتا ہے کہ یہ سیر روحانی تھی یا کوئی عجیب وغریب خواب تھا… مگر صحیح یہی ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام واقعہ از اول تا آخر بحالت بیداری اسی جسد شریف کے ساتھ اور بیداری میں واقع ہوا۔ اگر کوئی خواب یا کشف ہوتا تو مشرکین ِمکہ اس قدر تمسخر اور استہزاء نہ کرتے اور نہ بیت المقدس کی علامتیں آپ سے پوچھتے، خواب یا کشف کی عجیب وغریب چیز بھی قبولیت کی گنجائش رکھتی ہے، خواب دیکھنے والے سے نہ کوئی علامت ونشانی ------------------------------ (۱) سیرۃ ابن ہشام (۲) حوالہ سابق