محنت کرکے ، والد صاحب کی حیات میں اور اُن کے انتقال کے بعدبھی اس کاروبار کو پروان چڑھایا، اب دیگر بھائی بہنوں کا کہنا یہ ہے کہ والد کی اِس پراپرٹی میں ہم آپ لوگوں کے برابر کے شریک ہیں، توآپ بتائیں کہ کیا اُن دوبھائیوں اور بہنوں کا حصہ ہم دوبھائیوں کے برابر ہے؟ جب کہ اِس کاروبار کو ترقی صر ف ہم دو بھائیوں نے ہی دی ہے۔
(خالد اور عابد دونوں سر سے اشارہ کرتے رہیں۔)
مفتی (محمود الحسن) صاحب :
محترم حامد وخالدصاحبان! …آج ہمارا معاشرہ اِس بات سے بھرا ہوا ہے کہ کوئی بات صاف نہیں، اگر باپ بیٹوں کے درمیان کاروبار ہے ، تو وہ ویسے ہی چل رہا ہے، اس کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی کہ بیٹے باپ کے ساتھ جو کام کررہے ہیں ، آیا وہ شریک اور پارٹنر(Partner) کی حیثیت سے کررہے ہیں، یا ملازم کی حیثیت سے ؟ یا ویسے ہی باپ کی مفت مدد کررہے ہیں؟ اِس کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، مگر تجارت ہورہی ہے، ملیں قائم ہورہی ہیں ، دکانیں بڑھتی جارہی ہیں، مال وجائداد بڑھتا جارہا ہے ، اور یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کس کا کتنا حصہ ہے؟ اگر ان سے کہا بھی جائے کہ اپنے معاملات صاف کرو ، تو جواب دیا جاتا ہے کہ:
’’ یہ تو غیرت کی بات ہے، …بھائی بھائی میں صفائی کی کیا ضرورت؟! ‘‘
اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب شادیاں ہوجاتی ہیں،بچے بڑے ہوجاتے ہیں، اور شادی میں کسی نے زیادہ خرچ کرلیا اور کسی نے کم خرچ کر لیا، یا ایک بھائی نے